Previous 200 Entries24119. حضوري 24120. حضیض 24121. حضیض 24122. حطب 24123. حطب 24124. حطمہ24125. حظ 24126. حظ 24127. حظر 24128. حظوظ 24129. حظوظ 24130. حفاظت 24131. حفظ 24132. حفظ 24133. حفل 24134. حق 24135. حق 24136. حقا 24137. حقاءق 24138. حقارت 24139. حقارت 24140. حقانی 24141. حقنہ 24142. حقہ 24143. حقون 24144. حقیة 24145. حقیت 24146. حقیر 24147. حقیري 24148. حقیقت 24149. حقیقتًا 24150. حقیقی 24151. حك 24152. حكاك 24153. حكام 24154. حكامی 24155. حكایات 24156. حكایت 24157. حكم 24158. حكم 24159. حكم 24160. حكما 24161. حكمت 24162. حكمتی 24163. حكمی 24164. حكومت 24165. حكی 24166. حكیم 24167. حكیمانہ 24168. حكیمی 24169. حل 24170. حلاج 24171. حلال 24172. حلال 24173. حلالہ 24174. حلاوت 24175. حلبہ 24176. حلبی 24177. حلتیت 24178. حلف 24179. حلفا 24180. حلق 24181. حلقہ 24182. حلقوم 24183. حلقی 24184. حلكاري 24185. حلم 24186. حلمیة 24187. حلمیت 24188. حلہ 24189. حلہ 24190. حلوا 24191. حلواءی 24192. حلوان 24193. حلواین 24194. حلول 24195. حلوہ 24196. حلویات 24197. حلی 24198. حلیم 24199. حلیہ 24200. حماءل 24201. حمار 24202. حمار 24203. حماري 24204. حماقت 24205. حمال 24206. حمالہ 24207. حمام 24208. حمام 24209. حماما 24210. حمامی 24211. حمایت 24212. حمایتی 24213. حمد 24214. حمر 24215. حمر 24216. حمر 24217. حمرا 24218. حمق 24219. حمقا 24220. حمل 24221. حمل 24222. حملہ 24223. حمی 24224. حمیت 24225. حمید 24226. حمیدہ 24227. حمیل 24228. حمیل 24229. حنا 24230. حناءی 24231. حنجر 24232. حنجرہ 24233. حنظل 24234. حوا 24235. حوادث 24236. حوادثات 24237. حواري 24238. حواریون 24239. حواس 24240. حواشی 24241. حواصل 24242. حوالات 24243. حوالجات 24244. حوالدار 24245. حوالہ 24246. حوالی 24247. حوت 24248. حور 24249. حوري 24250. حوزہ 24251. حوصلہ 24252. حوض 24253. حول 24254. حول 24255. حولدار 24256. حویلی 24257. حی 24258. حیا 24259. حیات 24260. حیاتی 24261. حیثیت 24262. حیدر 24263. حیدري 24264. حیران 24265. حیرانی 24266. حیرت 24267. حیرتی 24268. حیز 24269. حیص بیص 24270. حیضی 24271. حیف 24272. حیفی 24273. حیلتًا 24274. حیلہ 24275. حیوان 24276. حیوانات 24277. حیوانی 24278. حیٰوت 24279. خ 24280. خا 24281. خاءف 24282. خاءن 24283. خاتم 24284. خاتمہ 24285. خاتون 24286. خاد 24287. خادم 24288. خادمان 24289. خادمہ 24290. خادمی 24291. خار 24292. خارا 24293. خارج 24294. خارجًا 24295. خارجہ 24296. خارجی 24297. خارستان 24298. خارش 24299. خارشت 24300. خارشتی 24301. خاري 24302. خازن 24303. خاستہ 24304. خاشاك 24305. خاص 24306. خاصة 24307. خاصةً 24308. خاصا 24309. خاصان 24310. خاصت 24311. خاصتًا 24312. خاصگی 24313. خاصہ 24314. خاصیت 24315. خاطب 24316. خاطر 24317. خاطرً 24318. خاطف
«
Previous

حطمہ

»
Next
ḥut̤ama, vulg. ḥat̤ma (for A. حطمة ḥut̤amat, fem.; v.n. fr. حطم 'to break to pieces'), s.m. A vehement fire; a name of hell or of hell-fire; the fourth stage of hell; or (as some say) the gate, or first stage, of hell.
Origin: Persian

Comments: 16

  1. On 11/07/2015 - 16:05

    حطمہ کی اہمیت پر نقاط
    تحریر شوکت محمود اعوان
    1962 ءمیں علامہ محمد یوسف جبریل کو قرآن حکیم میں حطمہ( ایٹمی سائنس اور قران حکیم )کےبارےمیں انکشاف ہوا ۔ حطمہ کےبارےمیں آقا نبی کریم اور صحابہ کرام کےارشادات موجود ہیں۔ بعد میں مفسرین کرام نےاس پر خصوصی تحقیق کی اور روحانی نسبت سےحطمہ کےبارےمیں بہت معلومات فراہم ہوئیں جو کہ تفاسیر کی کتب میں موجود ہیں۔یہ حقیقت ہےکہ علامہ صاحب نے ان تمام تفاسیر کا بہت گہرا مطالعہ کیا۔یہ مطالعہ بعد میں ان کےبہت کام آیا۔ یہ تمام تفاسیر سائنسی حقائق پر مبنی ہیںاور زیادہ تر حقائق موت کےبعد کی جہنم کےبارےمیں ہیں یعنی وہ حطمہ جو موت کےبعد جہنم کی شکل میں سامنےآئےگی اور گنہگاروں کو اس جہنم میں پھینکا جائےگا۔ لیکن علامہ صاحب نےاس فانی دنیا کےحطمہ پر تحقیق کا دائرہ بہت وسیع کیا اور صدیوں سےحطمہ کا تذکرہ شامل موضوعات رہا اس کےبارےمیں زیادہ سےزیادہ معلومات فراہم کیں۔اس کی سائنسی افادیت اور اہمیت پر علامہ صاحب نےوسیع تر حوالوں سےلکھا۔ کیوں کہ یہ دور سائنس کو ماننےوالا دور ہےاور سائنس اور جنگ کےحوالےسےحطمہ کی تباہی و بربادی ( ایٹمی سائنس) کےحوالےسےثابت ہو چکی ہی۔ اس کےلئےعلامہ صاحب نےفزکس ، کیمسٹری، ریڈیوبائیولوجی ، میتھ اور جنرل سائنس کےساتھ ساتھ دوسرےجنرل مضامین کا بھرپور مطالعہ کیا۔ اور ان سےاستفادہ کرکےعوام الناس کو انکشافات سےآگاہ کیا۔
    حطمہ کی حقیقت اس وقت واشگاف ہوئی جس وقت علامہ صاحب کا ستمبر 1963 ءمیں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں محترمہ شمل صاحبہ سےمناظرہ ہوا۔علامہ صاحب نےاپنی تحریروں میں اس مناظرہ کا ہمیشہ سخت لہجےمیں ذکر کیا۔ ان کےخیال میں غیر مسلم مستشرقین کی یہ سازش تھی کہ قران حکیم کو اللہ کےکلام کی بجائےحضرت محمد کا کلام ثابت کر کےاسےانسانی کلام ثابت کیا جائی۔ تاکہ وہ بنیاد ٹوٹ جائےجس پر قران حکیم کی عظمت قائم ہےکہ قران حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہےاور آقا نبی کریم پر نازل ہوا۔ علامہ صاحب نےمستشرقین سےکبھی بھی مصالحت نہیں کی۔ کیوں کہ مستشرقین نےبھی قران حکیم، آقا نبی کریم اور اسلام پر سخت لہجےمیں تنقید اور تحقیق کی ہی۔ علامہ صاحب نےچونکہ یورپی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور انہوں نےمستشرقین کی کتابیں گہرائی کےساتھ پڑھی تھیں۔ لہذا کبھی بھی انہوں نےمستشرقین کےساتھ محبت والا پہلو مدنظرنہیں رکھا۔ اسی وجہ سےاکثر لوگ معترض ہیں کہ اینی مری شمل اسلام کا مطالعہ بچپن سےکر رہی تھیں اور اس عمر میں جب 1963 ءمیں مباحثہ ہوا تو اینی مری شمل اسلام اور قران حکیم کو مسلمانوں سےبھی زیادہ بہتر طور پر سمجھ چکی تھیں۔ یہ حقیقت ہےلیکن علامہ صاھب جانتےہیں کہ اسلام کےخلاف سازشیں کسی بھی رنگ میں ہو سکتی ہیں اور تحقیق کےپہلو میں بھی اسلام اور قران پر بہت رقیق حملےہوئےہیں۔ لہذا اینی مری شمل کےبارےمیں ان کی رائےکچھ اچھی نہ تھی بےشک وہ اسلام کو اچھی طرح سےپرکھ چکی تھیں۔وہ جانتےتھےکہ اینی مری شمل ایک عیسائی مستشرق ہی۔ اور وہ اسلام کی تحقیق تو کر رہی ہےلیکن ایمان لانےوالےلوگ زیادہ تحقیق نہیں کرتے۔ اللہ جس کو چاہےقبول اسلام کےقریب لےآئی۔ اور جو تحقیق کرتا رہے۔ وہ تحقیق کےدائرےسےباہرہی نہ نکلی۔ یہی وجہ ہےکہ انہوں نےفرانسس بیکن اور سر جیمز جینز کےساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا۔ یہ دونوں شخصیات نےدنیا کےموجودہ نظام پر گہرےتاثرات چھوڑےہیں۔ بیکن نےمادہ پرستی کو جنم دیا، ترقی دی اور دین سےدوری کا سبق دیا۔ جب کہ سر جیمز جینز نےکائنات کی تخلیق سےخدائی عنصر کو ہی فارغ کر دیا۔ یہ دونوں نظریات اسلام کےمخالف تھے۔ اور ان کےنتائج بہت برےنکلےہیں اور انسانیت روحانیت کو چھوڑ کر مادہ پرستی کی سمت چلی گئی۔ علامہ صاھب کےخیال میں بی بی کی سکیم نہایت ہی خطرناک تھی۔ جب اس نےقران حکیم میںغلطیاں نکالیں تو لازماََ اس کا نتیجہ یہ نکلےگا کہ مسلمان اس مسئلےپر آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں گی۔ یہ حقیقت ہےکہ مسلمان بہت جلد یورپی مستشرقین کی باتوں میں آ جاتےہیں اور انہیں اپنےدین کی بنیاد کمزور دکھائی دینےلگتی ہےاور یہی وجہ ہےکہ آج مسلمان فرقہ واریت میں غیر مسلموں سےکہیں آگےہیں اور آپس میں ان کی فرقہ واریت کی جنگ اپنےعروج پر ہی۔ علامہ صاحب مسلمانوں کےمستقبل سےخائف تھی۔ انہیں یقین تھا کہ مسلمان کبھی بھی مادہ پرست نظام سےنہیں نکل سکیں گےاور وہ کبھی بھی اسلامی نظام معیشت اور نظام سیاست اسلامی نافذ نہیں کر سکیں گی۔ کیوں کہ مسلمانوں کی طنابیں غیر مسلم حکمرانوں کےہاتھوں میں مقید ہیں۔ چونکہ قران حکیم میں اللہ تعالیٰ کےارشاد کےمطابق اس کی حفاظت خود اللہ تعالی کےہاتھ میں ہےاور انا نخن نزلنا الذکروانا لہ لحافظون کےمطابق اللہ تعالیٰ نےہر دور میں قران حکیم کی خود حفاظت کرنا ہی۔ لہذا جوں ہی یہ فتنہ اظہر یونیورسٹی کےبعد لاہور کی سمت آیا۔علامہ صاحب کو خبردار کر دیا گیا ۔ وہ کہتےتھےکہ چاہےمس اینی مری شمل کی نیت ٹھیک ہی کیوں نہ ہو کوئی بھی مسلمان ان لوگوں کی تحقیق پر یقین بڑی مشکل اورسوچ بچار کےبعد کرتا ہی۔ (بعض لوگ فوری قبول کر لیتےہیں) کیوں کہ ظاہر میں کچھ اور ہوتا ہےاور باطن میں کچھ اور۔اگر مثلاََ لاہور میں کھلےمقام پر بی بی یہی تقریر کرتی جو اس نےپنجاب یونیورسٹی کےہال میں کی تو دو لاکھ میںسےکتنےآدمی سمجھ سکتےکہ و ہ غلطیاں جن کی نشان دہی بی بی کر رہی ہےجھوٹ ہیں۔ تقریر کےبعد لوگ آپس میں دو گروہ بن کر الجھ جاتی۔ ان گروہوں میں ایک گروہ یہ کہتا کہ قران حکیم میں غلطیاں ہیں دوسرا گروہ کہتا کہ غلطیاں نہیں ہیں اور اس طرح مسلمانوں میں جنگ و جدل کا سماں پیدا ہو جاتا۔ اسلام پر اس قسم کےرقیق حملے پہلےبھی ہوتےرہےہیں اور آئندہ زیادہ سختی کےساتھ ہوتےرہیں گی۔ اور یقیناََ بی بی کا حملہ نہایت خطرناک تھا۔
    بنیادی طور پر حطمہ کی سورة آئن سٹن، نیل بوہر، اینری کوفرمی، برٹرینڈ رسل ، ایڈورڈٹیلر ، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیر اور اوپن ہیمر جیسےلیول کےسائنس دان کماحقہ سمجھنےکی اہلیت رکھتےہیں۔ ان میں سےاکثر مر چکےہیں۔اور اب ان حقیقتوں کو سمجھنےوالا کوئی نہیں۔ اگر سمجھےگا تو بھی اس طرح نہیں جس طرح کہ مشہور سائنس دان سمجھ سکتےہیں۔ اگرچہ سائنس دانوں نےایٹمی جہنم سےنجات کےکئی ذرائع بیان کئےہیں لیکن انسانیت کی ایٹمی جہنم سےنجات کا ذریعہ فقط یہی سورة الھمزہ ہی۔ ورنہ باقی تمام معاملات کمزور پڑ رہےہیں۔ عوام کی اکثریت ایٹمی سائنس سےناواقف ہےاور یہ علم سیکرٹ علم ہے۔ سوائےچند سائنس دانوں کےدوسرا کوئی بھی عالم، فاضل، محقق ،مدبر اس علم سےواقف نہیں۔ کیوں کہ اس علم کو محدود رکھا گیا ہےاور ایک مخصوص ٹولہ مخصوص مفادات کو محفوظ کرتےہوئےاس علم کےبارےمیں بات کرتاہےاور بہت ساری باتیں وہ لوگوں کو نہیں بتاتا۔ بلکہ اپنےملک کےاہل علم طبقہ کو اس علم سےمحروم رکھتا ہی۔ تابکاری، جین میوٹیشن جیسےعلوم جو انسانیت کے لئےنہایت ہی خطرناک ہیں اور ان کےنتائج انسانی وجود کو تباہ و برباد کرنےکےمترادف ہیں۔ لہذا سائنس دان کبھی بھی ان چیزوں کو عوام میں اظہار نہیں کرتی۔ لیکن قران حکیم نےچودہ سو برس قبل اس علم کےبہت سارےنقطےاور حقائق سےانسانیت کو آگاہ کر دیاتھا تاکہ وقت پر قران حکیم سے استفادہ کرکےانسانیت کو ایٹمی جہنم سےبچا لیا جائی۔ بنیادی طور پر ایٹم بم ہتھیار نہیں۔ بلکہ عذاب الہیٰ ہیں اور انسانیت کا مکمل قتال ہیں۔ ہتھیار ایک محدود جنگ میں استعمال ہوتےہیں اور ان کےنقصانات نسبتاََ ایٹم بموں کےہتھیاروں سےکم ہوتےہیں جب کہ ایٹم بم انسانیت کی مکمل تباہی کا ذریعہ بنتےہیں۔
    شمل کےبارےمیں مختلف نظریات ہیں۔ اس کی علمی قابلیت کا اعتراف دنیا بھر کرتی ہےاور پاکستان کےاہلِ علم تو اس کو ایک عظیم سکالر مانتےہیں۔ اس کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا۔ اسلام اور قران حکیم کی حقانیت کو وہ اچھی طرح سےسمجھ چکی تھی اور لاہور کےواقعہ نےاسےمزید سوچنےپر مجبور کر دیا کہ وہ اسلام قبول کرلی۔ لیکن اس نےاسلام قبول کرنےکا باقاعدہ اعلان نہ کیا جس کی وجہ سےبہت سارےخدشات پیدا ہو گئی۔ اخبارات والوں نےاپنےاپنےتجزیئےلکھی۔ اور انہوں نےشمل کی وہ وصیت بھی نہیں دیکھی جس میں اس نےکہا تھا کہ اسےپاکستان کےقبرستان میں دفن کیا جائی۔ اب وہ یہ کیسےاعلان کر سکتی ہےکہ جب کہ مسلمان ہی مسلمانوں کےقبرستان میں دفن ہو سکتا ہی۔
    حطمہ کی سائنسی تفسیر نےبہت سارےاہل علم کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ اور وہ اس حقیقت سےانکار نہیں کر سکتےکہ قران حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہی۔ تاہم اس کی مکمل تشریح سائنسی انداز میں ضروری تھی اور یہ مکمل تشریح علامہ صاحب نےکر دی۔ ایک اس دنیا کا حطمہ ہےاور ایک موت کےبعد کی دنیا کاحطمہ۔ پہلی تفاسیر میں اگلی حطمہ کا ذکر بہت تفصیل سےموجود ہی۔ کیوں کہ اس زمانےمیں ایٹم بم نہیں تھی۔ جب کہ علامہ صاحب نےاس دور کےحطمہ (عارضی ایٹمی جہنم) کو ثابت سائنسی اور ٹیکنیکل زبان میں کیاہی۔ علامہ صاحب نے فلسفہ ءاٹامزم کو آسان اردو زبان میں پیش کرکےقدیم و جدید فلسفہ کی تشریح کر دی ہی۔ جو شائد کوئی دوسرا آدمی اس اچھےانداز میں نہیں کرسکا۔ علامہ صاحب نےمضامین اور کتابی شکل میں بہت کچھ لکھ دیا ہی۔ آرٹیکل کی صورت میں ان کی باتیں ایک مخصوص سائنسی طبقہ کےلئےہیں۔ جب کہ کتابوں میں تفصیل کےساتھ عوام الناس کےلئےبھی تحریر کر دی ہیں۔ آرٹیکل صرف چوٹی کےایٹامسٹس اور سائنس دان سمجھ سکتےہیں۔ علامہ صاحب فرماتےہیں ۔
    Storm of intellect,atomic science and gnostics burst upon me in the early seventies
    وہ تقریباََ تیس سال علم کےحصول میں کوشاں اور دس سال اس کی لکھائی میں مصروف رہی۔ انہوں نےانتہائی مصروف ترین زندگی گذاری۔ اس علم کےحصول کےساتھ ساتھ تمام علوم کو پڑھنا ان کا تنقیدی جائزہ متصور کرنا اور پھر عبادات و ریاضات کو وقت دینا، دنیاوی مسائل کو بھی مدنظر رکھنا، آئےہوئےمہمانوں کو بھی ملاقات کا وقت دینا، لوگوں کےروحانی مسائل بھی حل کرنا،لوگوں کےلئےدعائیں کرنا، تقاریر کرنا، تبلیغ کرنا، خط و کتابت کرنا، مضامین شائع کرانا ۔ چلےکشی کرنا۔ سیرو سیاحت کرنا۔ مزارات پر حاضری دینا۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی تھا اور مشکلات اور پریشانیاں بیماریاں، دشموں کےمظالم نہایت صبر سےسہنا دنیاوی تکالیف برداشت کرنا، روحانی مناظرےبالخصوص یورپی افراد کےساتھ۔ ان کو خطوط لکھنا اور جوابات دینا اگرچہ وسائل موجود نہیں تھےبلکہ نہ ہونےکےبرابر تھی۔ حتیٰ کہ گاو¿ں میں صرف دو چھوٹےچھوٹےکمروں پر مشتمل رہائش اور شہر میں بھی آ کر کھوہوں غاروں میں زندگی گذارنا۔ دوران سیاحت بھی معمولی سی زندگی گذارنا۔ دنیا سےمکمل لاتعلقی کےباوجود دنیا کےتمام حقائق سےوابستگی اور ان کےمسائل کےحل کےلئےمکمل آگاہی رکھنا اور ان کا حل پیش کرنا یہ سب ان کی زندگی کا حصہ تھا۔
    علامہ صاحب کا ارشاد ہےکہ اینی مری شمل مسلمان ہوئی ہی۔ اور اب اس کا پیچھا کرنےکی ضرورت نہیں ہےورنہ ایسا نہ ہو کہ وہ پھر اسلام سےبھاگ جائی۔ اس کی وصیت بھی اس بات کی عکاسی کرتی ہےکہ وہ مکلی کےقبرستان میںدفن ہونا چاہتی تھیں۔ علامہ صاحب نےتو اس کا مسلمان نام بھی بتایا۔
    علامہ صاحب فرماتےہیں کہ ”ایٹمی جنگ کی صورت میںدس لاکھ سال تک زمین ویران و برباد ہو جائےگی “۔ اب اس بات کا اندازہ کر لیں کہ اگر ایسا ہوجائےتوکیا اس کائنات کا وجود باقی رہےگا اور انسان کا اپنا قصور ہےکہ وہ انسانیت کو خود اپنےہاتھوں سے ہی ختم کرنا چاہتا ہی۔ ایک اور مشکل جو، ان کودرپیش تھی کہ ان کےمدمقابل سائنس دان بھی ایٹمی سائنس جاننےسےمحروم تھی۔ کیوں کہ سائنس دان تو بہت سےہیں لیکن ایٹمی سائنس دان بہت کم ہیں اور پھر ان ایٹمی سائنس دانوں کےاندر بھی ایٹمی سائنس کی حقیقت کو سمجھنےکی اہلیت نہیں ہوتی۔ یا وہ اپنےمفادات کی خاطر کوئی ایسی بات کہنےکےلئےتیار نہیں ہوتےجس کی وجہ سےایٹمی سائنس کےنظریات پر ٹھیس پہنچی۔ لہذا وہ کئی سیکرٹ چیزوں کو سیکرٹ رکھتےہیں تاکہ عوام الناس میں سائنس اور سائنس دانوں کےبارےمیں خدشات پیدا نہ ہوں۔ لیکن علامہ صاحب نےعوام الناس کو تمام سیکرٹ چیزوں سےآگاہی دےدی، جس کی وجہ سےعوام کوایٹمی سائنس کی حقیقت سےآشنائی ہو گئی لیکن بدقسمتی یہ کہ زندگی کی مادی ضروریات نےانہیں اس بات پر مجبور رکھا کہ وہ ایٹمی سائنس کےخلاف کوئی قدم نہ اٹھا سکیں اور ایٹمی تباہ کاری کی طرف رواں دواں ہیں۔ علامہ صاحب انسانیت کو ایٹمی جہنم سےبچنےکےلئےسردھڑکی بازی لگائےہوئےتھی۔ ان خدشات کےخلاف یورپ میں ایٹم بم کےخلاف کئی تحریکیں اٹھیں۔ لیکن بعد میں وہ سب ناکام ہو گئیں ۔کیونکہ مادیت پرستی کا بلڈوزر ان کی معیشت کو آگےکی طرف دھکیلتےہوئےان کو جہنم کی طرف لےگیا ۔ علامہ صاحب نےحوالہ دیتےہوئےکہا ” چند سال قبل جوناتھن شیل جو نیویارک ٹائم کاصحافی تھا ، نےایک کتاب” فیٹ آف دی ارتھ“ fate of the earthلکھی۔وہ پوری دنیا میں ہیرو بن گیا۔ مگر فوراََ سارا رد عمل (reaction) ختم ہو گیا۔
    علامہ صاحب فرماتےہیں :۔
    ” وہ قوم جو ایٹم بم کےخلاف کھڑی ہو کر اعلان کرےگی وہی محسن وہی ہیرو ہو گی ۔ قومیں اس کا لحاظ کریں گی “
    علامہ صاحب نےحطمہ پر چودہ جلدیں مکمل کیں ۔یہ تمام جلدیں ایٹمی جہنم کےگرد گھومتی ہیں۔
    علامہ صاحب نےایٹم بم کی خصوصیات کےخطرات پر جو کچھ لکھا ہےکوئی بڑےسےبڑا سائنس دان بھی نہیں لکھ سکتا کیوں کہ ایٹمی سائنس پڑھنےکےلئےکسی یورپی ملک سےپی ایچ ڈی کرنا پڑتی ہےاور علامہ صاحب پی ایچ ڈی نہیںتھی۔ ایٹم بم کی تباہ کاریوں میں سب سےاہم مسئلہ تابکاری کی خصوصیات کےخطرات اور تباہ کاریاں ہیںجس پر علامہ صاحب نےپھرپور روشنی ڈالی ہی۔
    ”بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس“ معروف جریدےمیں اس موضوع پر ان کےخطوط چھپتےرہی۔ برٹرینڈرسل کو بھی انہوں نےاسی مسئلہ پر خط لکھا اور انہیں بتایا کہ آئن سٹائن اور رسل اور باقی تمام سائنس دانوں کی جنگ سےدور رہنےکی اپیلیں ناکام ہو چکی ہیں اور دنیا میں جنگ کی تباہی کا سلسلہ تیز سےتیز ہو رہا ہی۔ اس کو روکنےکےلئےعلامہ صاحب کی جرات کو سلام پیش کیا جائےگا۔
    علامہ صاحب نےاس ضمن میں مذاہب میں ہتھیاروں کی نوعیت اور قسموں کےسلسلےمیں بحث کی ہےاور انجیل اور قران سےایٹمی ہٹھیاروں کو ثابت کیا اور ان کی تباہ کاری کی وجہ دولت سےپیار اور روحانیت سےنفرت ہی۔ ان کےخیال میں روحانیت پرعمل اور مادہ پرستی سےکنارہ کشی ہی انسانیت کوجملہ تباہ کاریوں سےبچا سکتی ہی۔ انہیں خود روحانی مشن کےلئےخوابوں کی مدد ملتی رہی اور انہوں نےزندگی میں بےشمار سچےخواب دیکھےجن کی تعبیریں ان کےسامنے زندگی میں پوری ہوئیں اور اب کچھ بعد میں پوری ہو رہی ہیں۔

    (شوکت محمود اعوان جنرل سیکرٹری ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی http://www.oqasa.org 03009847582

  2. On 16/12/2015 - 15:10

    ریخ
    قطب شاہی علوی اعوان
    مستند قدیم عربی، فارسسی، اور انگریزی کتب کی روشنی میں
    تحریر
    محمد کریم خان اعوان
    ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان، سنگولہ، راولا کوٹ آزا د کشمی
    03129206639
    03335258450 Malik Tariq Awan , chohr chowk, Rawalpindi
    051-5558320 Ahmad book corporation iqbal road committee chowk rawalpindi
    شائع ہو گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ مختصر تاریخ علوی اعوان معہ ڈائرکٹری بھی شائع ہو گئی ہے۔ جس میں چیف کوارڈینیٹرز اور کوارڈینیٹرز کے فون نمبر دیئے گئے ہیں۔ یہ کوارڈینیٹر اپنے اپنے علاقوں میں تاریخی کام کرتے ہیں اور پھر کتاب کی اشاعت کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری ہے۔ تمام دوستوں سے اپیل ہے کہ وہ ان دونوں کتابوں کو خریدیں تاکہ اگلی کتاب تاریخ الانساب جس میں شجرہ نسب، گوتیں اور علاقے شامل ہوں گے۔ اس کے لئے اس ڈایریکٹری کا مطالعہ اور اپنے پاس رکھنا سب اعوانوں کے لئے ضروری ہے۔ رابطہ کرکے اپنی اپنی کتاب منگوالیں۔
    شوکت محمود اعوان جنرل سیکرٹری
    ادارہ تحقیقی الاعوان پاکستان
    03009847582
    http://www.oqasa.org
    Back to Conversion Tool

    Linux VPS | Dedicated Servers | Urdu H

  3. On 13/05/2016 - 13:16

    حطمہ کی اہمیت پر نقاط
    تحریر : شوکت محمود اعوان
    1962 ء میں علامہ محمد یوسف جبریل ؒ کو قرآن حکیم میں حطمہ( ایٹمی سائنس اور قران حکیم )کے بارے میں انکشاف ہوا ۔ حطمہ کے بارے میں آقا نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے ارشادات موجود ہیں۔ بعد میں مفسرین کرام نے اس پر خصوصی تحقیق کی اور روحانی نسبت سے حطمہ کے بارے میں بہت معلومات فراہم ہوئیں جو کہ تفاسیر کی کتب میں موجود ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ علامہ صاحب نے ان تمام تفاسیر کا بہت گہرا مطالعہ کیا۔یہ مطالعہ بعد میں ان کے بہت کام آیا۔ یہ تمام تفاسیر سائنسی حقائق پر مبنی ہیں اور زیادہ تر حقائق موت کے بعد کی جہنم کے بارے میں ہیں یعنی وہ حطمہ جو موت کے بعد جہنم کی شکل میں سامنے آئے گی اور گنہگاروں کو اس جہنم میں پھینکا جائے گا۔ لیکن علامہ صاحب نے اس فانی دنیا کے حطمہ پر تحقیق کا دائرہ بہت وسیع کیا اور صدیوں سے حطمہ کا تذکرہ شامل موضوعات رہا اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کیں۔اس کی سائنسی افادیت اور اہمیت پر علامہ صاحب نے وسیع تر حوالوں سے لکھا کیوں کہ یہ دور سائنس کو ماننے والا دور ہے اور سائنس اور جنگ کے حوالے سے حطمہ کی تباہی و بربادی ( ایٹمی سائنس) کے حوالے سے ثابت ہو چکی ہے۔ اس کے لئے علامہ صاحب نے فزکس ، کیمسٹری، ریڈیوبائیولوجی ، میتھ اور جنرل سائنس کے ساتھ ساتھ دوسرے جنرل مضامین کا بھرپور مطالعہ کیا اور ان سے استفادہ کرکے عوام الناس کو انکشافات سے آگاہ کیا۔
    حطمہ کی حقیقت اس وقت واشگاف ہوئی جس وقت علامہ صاحب کا ستمبر 1963 ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں محترمہ شمل صاحبہ سے مناظرہ ہوا۔علامہ صاحب نے اپنی تحریروں میں اس مناظرہ کا ہمیشہ سخت لہجے میں ذکر کیا۔ ان کے خیال میں غیر مسلم مستشرقین کی یہ سازش تھی کہ قرآن حکیم کو اللہ کے کلام کی بجائے حضرت محمد ﷺ کا کلام ثابت کر کے اسے انسانی کلام ثابت کیا جائے تاکہ وہ بنیاد ٹوٹ جائے جس پر قرآن حکیم کی عظمت قائم ہے کہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور آقا نبی کریمﷺ پر نازل ہوا۔ علامہ صاحب نے مستشرقین سے کبھی بھی مصالحت نہیں کی۔ کیوں کہ مستشرقین نے بھی قرآن حکیم، آقا نبی کریم ﷺ اور اسلام پر سخت لہجے میں تنقید اور تحقیق کی ہے۔ علامہ صاحب نے چونکہ یورپی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور انہوں نے مستشرقین کی کتابیں گہرائی کے ساتھ پڑھی تھیں لہذا کبھی بھی انہوں نے مستشرقین کے ساتھ محبت والا پہلو مدنظرنہیں رکھا۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ معترض ہیں کہ اینی مری شمل اسلام کا مطالعہ بچپن سے کر رہی تھیں اور اس عمر میں جب 1963 ء میں مباحثہ ہوا تو اینی مری شمل اسلام اور قرآن حکیم کو مسلمانوں سے بھی زیادہ بہتر طور پر سمجھ چکی تھیں اور علامہ صاحب کو ان سے سخت رویہ نہیں رکھنا چاہیئے تھا۔ یہ حقیقت ہے لیکن علامہ صاحب جانتے ہیں کہ اسلام کے خلاف سازشیں کسی بھی رنگ میں ہو سکتی ہیں اور تحقیق کے پہلو میں بھی اسلام اور قرآن پر بہت رقیق حملے ہوئے ہیں۔ لہذا اینی مری شمل کے بارے میں ان کی رائے کچھ اچھی نہ تھی بے شک وہ اسلام کو اچھی طرح سے پرکھ چکی تھیں۔وہ جانتے تھے کہ اینی مری شمل ایک عیسائی مستشرق ہے اور وہ اسلام کی تحقیق تو کر رہی ہے لیکن ایمان لانے والے لوگ زیادہ تحقیق نہیں کرتے ۔ اللہ جس کو چاہے قبول اسلام کے قریب لے آئے اور جو تحقیق کرتا رہے وہ تحقیق کے دائرے سے باہرہی نہ نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فرانسس بیکن اور سر جیمز جینز کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا۔ یہ دونوں شخصیات نے دنیا کے موجودہ نظام پر گہرے تاثرات چھوڑے ہیں۔ بیکن نے مادہ پرستی کو جنم دیا، ترقی دی اور دین سے دوری کا سبق دیا جب کہ سر جیمز جینز نے کائنات کی تخلیق سے خدائی عنصر کو ہی فارغ کر دیا۔ یہ دونوں نظریات اسلام کے مخالف تھے اور ان کے نتائج بہت برے نکلے ہیں اور انسانیت روحانیت کو چھوڑ کر مادہ پرستی کی سمت چلی گئی۔ علامہ صاحب کے خیال میں بی بی کی سکیم نہایت ہی خطرناک تھی۔ جب اس نے قرآن حکیم میں غلطیاں نکالیں تو لازماََ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مسلمان اس مسئلے پر آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان بہت جلد یورپی مستشرقین کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور انہیں اپنے دین کی بنیاد کمزور دکھائی دینے لگتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان فرقہ واریت میں غیر مسلموں سے کہیں آگے ہیں اور آپس میں ان کی فرقہ واریت کی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ علامہ صاحب مسلمانوں کے مستقبل سے خائف تھے۔ انہیں یقین تھا کہ مسلمان کبھی بھی مادہ پرست نظام سے نہیں نکل سکیں گے اور وہ کبھی بھی اسلامی نظام معیشت اور نظام سیاست اسلامی نافذ نہیں کر سکیں گے کیوں کہ مسلمانوں کی طنابیں غیر مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں میں مقید ہیں۔ چونکہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کی حفاظت خود اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور انا نخن نزلنا الذکروانا لہ لحافظون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں قرآن حکیم کی خود حفاظت کرنا ہے لہذا جوں ہی یہ فتنہ اظہر یونیورسٹی کے بعد لاہور کی سمت آیا۔علامہ صاحب کو خبردار کر دیا گیا ۔ وہ کہتے تھے کہ چاہے مس اینی مری شمل کی نیت ٹھیک ہی کیوں نہ ہو کوئی بھی مسلمان ان لوگوں کی تحقیق پر یقین بڑی مشکل اورسوچ بچار کے بعد کرتا ہے۔ (بعض لوگ فوری قبول کر لیتے ہیں) کیوں کہ ظاہر میں کچھ اور ہوتا ہے اور باطن میں کچھ اور۔اگر مثلاََ لاہور میں کھلے مقام پر بی بی یہی تقریر کرتی جو اس نے پنجاب یونیورسٹی کے ہال میں کی تو دو لاکھ میں سے کتنے آدمی سمجھ سکتے کہ و ہ غلطیاں جن کی نشان دہی بی بی کر رہی ہے جھوٹ ہیں۔ تقریر کے بعد لوگ آپس میں دو گروہ بن کر الجھ جاتے۔ ان گروہوں میں ایک گروہ یہ کہتا کہ قرآن حکیم میں غلطیاں ہیں دوسرا گروہ کہتا کہ غلطیاں نہیں ہیں اور اس طرح مسلمانوں میں جنگ و جدل کا سماں پیدا ہو جاتا۔ اسلام پر اس قسم کے رقیق حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور آئندہ زیادہ سختی کے ساتھ ہوتے رہیں گے اور یقیناََ بی بی کا حملہ نہایت خطرناک تھا۔ علامہ صاحب یہ بھی سمجھتے تھے کہ اس مسئلے کے پیچھے یہودی لابی بھی اپنا کام کر رہی ہے۔
    بنیادی طور پر حطمہ کی سورۃ آئن سٹن، نیل بوہر، اینری کوفرمی، برٹرینڈ رسل ، ایڈورڈٹیلر ، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیر اور اوپن ہیمر جیسے لیول کے سائنس دان کماحقہ سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر مر چکے ہیں اور اب ان حقیقتوں کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ اگر سمجھے گا تو بھی اس طرح نہیں جس طرح کہ مشہور سائنس دان سمجھ سکتے ہیں۔ اگرچہ سائنس دانوں نے ایٹمی جہنم سے نجات کے کئی ذرائع بیان کئے ہیں لیکن انسانیت کی ایٹمی جہنم سے نجات کا ذریعہ فقط یہی سورۃ الھمزہ ہے ورنہ باقی تمام معاملات کمزور پڑ رہے ہیں۔ عوام کی اکثریت ایٹمی سائنس سے ناواقف ہے اور یہ علم سیکرٹ علم ہے ۔ سوائے چند سائنس دانوں کے دوسرا کوئی بھی عالم، فاضل، محقق ،مدبر اس علم سے واقف نہیں کیوں کہ اس علم کو محدود رکھا گیا ہے اور ایک مخصوص ٹولہ مخصوص مفادات کو محفوظ کرتے ہوئے اس علم کے بارے میں بات کرتاہے اور بہت ساری باتیں وہ لوگوں کو نہیں بتاتابلکہ اپنے ملک کے اہل علم طبقہ کو اس علم سے محروم رکھتا ہے۔ تابکاری، جین میوٹیشن جیسے علوم جو انسانیت کے لئے نہایت ہی خطرناک ہیں اور ان کے نتائج انسانی وجود کو تباہ و برباد کرنے کے مترادف ہیں لہذا سائنس دان کبھی بھی ان چیزوں کو عوام میں اظہار نہیں کرتے لیکن قرآن حکیم نے چودہ سو برس قبل اس علم کے بہت سارے نقطے اور حقائق سے انسانیت کو آگاہ کر دیاتھا تاکہ وقت پر قرآن حکیم سے استفادہ کرکے انسانیت کو ایٹمی جہنم سے بچا لیا جائے۔ بنیادی طور پر ایٹم بم ہتھیار نہیں بلکہ عذاب الہیٰ ہیں اور انسانیت کا مکمل قتال ہیں۔ ہتھیار ایک محدود جنگ میں استعمال ہوتے ہیں اور ان کے نقصانات نسبتاََ ایٹم بموں کے ہتھیاروں سے کم ہوتے ہیں جب کہ ایٹم بم انسانیت کی مکمل تباہی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
    شمل کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ اس کی علمی قابلیت کا اعتراف دنیا بھر کرتی ہے اور پاکستان کے اہلِ علم تو اس کو ایک عظیم سکالر مانتے ہیں۔ اس کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا۔ اسلام اور قرآن حکیم کی حقانیت کو وہ اچھی طرح سے سمجھ چکی تھی اور لاہور کے واقعہ نے اسے مزید سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ اسلام قبول کرلے۔ لیکن اس نے اسلام قبول کرنے کا باقاعدہ اعلان نہ کیا جس کی وجہ سے بہت سارے خدشات پیدا ہو گئے۔ اخبارات والوں نے اپنے اپنے تجزیئے لکھے اور انہوں نے شمل کی وہ وصیت بھی نہیں دیکھی جس میں اس نے کہا تھا کہ اسے کراچی کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ اب وہ یہ کیسے اعلان کر سکتی ہے کہ جب کہ مسلمان ہی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے۔
    حطمہ کی سائنسی تفسیر نے بہت سارے اہل علم کی آنکھیں کھول دی ہیں اور وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تاہم اس کی مکمل تشریح سائنسی انداز میں ضروری تھی اور یہ مکمل تشریح علامہ صاحب نے کر دی۔ ایک اس دنیا کا حطمہ ہے اور ایک موت کے بعد کی دنیا کاحطمہ۔ پہلی تفاسیر میں اگلی حطمہ کا ذکر بہت تفصیل سے موجود ہے کیوں کہ اس زمانے میں ایٹم بم نہیں تھے جب کہ علامہ صاحب نے اس دور کے حطمہ (عارضی ایٹمی جہنم) کو سائنسی اور ٹیکنیکل زبان میں ثابت کیاہے۔ علامہ صاحب نے فلسفہ ء اٹامزم کو آسان اردو زبان میں پیش کرکے قدیم و جدید فلسفہ کی تشریح کر دی ہے جو شائد کوئی دوسرا آدمی اس اچھے انداز میں نہیں کرسکا۔ علامہ صاحب نے مضامین اور کتابی شکل میں بہت کچھ لکھ دیا ہے۔ آرٹیکل کی صورت میں ان کی باتیں ایک مخصوص سائنسی طبقہ کے لئے ہیں۔ جب کہ کتابوں میں تفصیل کے ساتھ عوام الناس کے لئے بھی تحریر کر دی ہیں۔ آرٹیکل صرف چوٹی کے ایٹامسٹس اور سائنس دان سمجھ سکتے ہیں۔ علامہ صاحب فرماتے ہیں ۔
    Storm of intellect,atomic science and gnostics burst upon me in the early seventies
    وہ تقریباََ تیس سال علم کے حصول میں کوشاں اور دس سال اس کی لکھائی میں مصروف رہے۔ انہوں نے انتہائی مصروف ترین زندگی گذاری۔ اس علم کے حصول کے ساتھ ساتھ تمام علوم کو پڑھنا ان کا تنقیدی جائزہ متصور کرنا اور پھر عبادات و ریاضت کو وقت دینا، دنیاوی مسائل کو بھی مدنظر رکھنا، آئے ہوئے مہمانوں کو بھی ملاقات کا وقت دینا، لوگوں کے روحانی مسائل بھی حل کرنا،لوگوں کے لئے دعائیں کرنا، تقاریر کرنا، تبلیغ کرنا، خط و کتابت کرنا، مضامین شائع کرانا ۔ چلے کشی کرنا۔ سیرو سیاحت کرنا۔ مزارات پر حاضری دینا۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی تھا اور مشکلات اور پریشانیاں بیماریاں، دشموں کے مظالم نہایت صبر سے سہنا دنیاوی تکالیف برداشت کرنا، روحانی مناظرے بالخصوص یورپی افراد کے ساتھ۔ ان کو خطوط لکھنا اور جوابات دینا اگرچہ وسائل موجود نہیں تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ حتیٰ کہ گاؤں میں صرف دو چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل رہائش اور شہر میں بھی آ کر کھوہوں غاروں میں زندگی گذارنا۔ دوران سیاحت بھی معمولی سی زندگی گذارنا۔ دنیا سے مکمل لاتعلقی کے باوجود دنیا کے تمام حقائق سے وابستگی اور ان کے مسائل کے حل کے لئے مکمل آگاہی رکھنا اور ان کا حل پیش کرنا یہ سب ان کی زندگی کا حصہ تھا۔
    علامہ صاحب کا ارشاد ہے کہ اینی مری شمل مسلمان ہوئی ہے اور اب اس کا پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ ایسا نہ ہو کہ وہ پھر اسلام سے بھاگ جائے۔ اس کی وصیت بھی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ مکلی کے قبرستان میں دفن ہونا چاہتی تھیں۔ علامہ صاحب نے تو اس کا مسلمان نام بھی بتایا۔علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ایٹمی جنگ کی صورت میں دس لاکھ سال تک زمین ویران و برباد ہو جائے گی ‘‘۔ اب اس بات کا اندازہ کر لیں کہ اگر ایسا ہوجائے توکیا اس کائنات کا وجود باقی رہے گا اور انسان کا اپنا قصور ہے کہ وہ انسانیت کو خود اپنے ہاتھوں سے ہی ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایک اور مشکل جو، ان کودرپیش تھی کہ ان کے مدمقابل سائنس دان بھی ایٹمی سائنس جاننے سے محروم تھے۔ کیوں کہ سائنس دان تو بہت سے ہیں لیکن ایٹمی سائنس دان بہت کم ہیں اور پھر ان ایٹمی سائنس دانوں کے اندر بھی ایٹمی سائنس کی حقیقت کو سمجھنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔ یا وہ اپنے مفادات کی خاطر کوئی ایسی بات کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ایٹمی سائنس کے نظریات پر ٹھیس پہنچے۔ لہذا وہ کئی سیکرٹ چیزوں کو سیکرٹ رکھتے ہیں تاکہ عوام الناس میں سائنس اور سائنس دانوں کے بارے میں خدشات پیدا نہ ہوں لیکن علامہ صاحب نے عوام الناس کو تمام سیکرٹ چیزوں سے آگاہی دے دی، جس کی وجہ سے عوام کوایٹمی سائنس کی حقیقت سے آشنائی ہو گئی لیکن بدقسمتی یہ کہ زندگی کی مادی ضروریات نے انہیں اس بات پر مجبور رکھا کہ وہ ایٹمی سائنس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا سکیں اور ایٹمی تباہ کاری کی طرف رواں دواں ہیں۔ علامہ صاحب انسانیت کو ایٹمی جہنم سے بچنے کے لئے سردھڑکی بازی لگائے ہوئے تھے۔ ان خدشات کے خلاف یورپ میں ایٹم بم کے خلاف کئی تحریکیں اٹھیں۔ لیکن بعد میں وہ سب ناکام ہو گئیں کیونکہ مادیت پرستی کا بلڈوزر ان کی معیشت کو آگے کی طرف دھکیلتے ہوئے ان کو جہنم کی طرف لے گیا ۔ علامہ صاحب نے حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’ چند سال قبل جوناتھن شیل جو نیویارک ٹائم کاصحافی تھا ، نے ایک کتاب’’ فیٹ آف دی ارتھ‘‘ fate of the earthلکھی۔وہ پوری دنیا میں ہیرو بن گیا۔ مگر فوراََ سارا رد عمل (reaction) ختم ہو گیا۔
    علامہ صاحب فرماتے ہیں :۔
    ’’ وہ قوم جو ایٹم بم کے خلاف کھڑی ہو کر اعلان کرے گی وہی محسن وہی ہیرو ہو گی ۔ قومیں اس کا لحاظ کریں گی ‘‘
    علامہ صاحب نے حطمہ پر چودہ جلدیں مکمل کیں ۔یہ تمام جلدیں ایٹمی جہنم کے گرد گھومتی ہیں۔
    علامہ صاحب نے ایٹم بم کی خصوصیات کے خطرات پر جو کچھ لکھا ہے کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان بھی نہیں لکھ سکتا کیوں کہ ایٹمی سائنس پڑھنے کے لئے کسی یورپی ملک سے پی ایچ ڈی کرنا پڑتی ہے اور علامہ صاحب پی ایچ ڈی نہیں تھے۔ ایٹم بم کی تباہ کاریوں میں سب سے اہم مسئلہ تابکاری کی خصوصیات کے خطرات اور تباہ کاریاں ہیں جس پر علامہ صاحب نے پھرپور روشنی ڈالی ہے۔
    ’’بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس‘‘ معروف جریدے میں اس موضوع پر ان کے خطوط چھپتے رہے۔ برٹرینڈرسل کو بھی انہوں نے اسی مسئلہ پر خط لکھا اور انہیں بتایا کہ آئن سٹائن اور رسل اور باقی تمام سائنس دانوں کی جنگ سے دور رہنے کی اپیلیں ناکام ہو چکی ہیں اور دنیا میں جنگ کی تباہی کا سلسلہ تیز سے تیز ہو رہا ہے۔ اس کو روکنے کے لئے علامہ صاحب کی جرات کو سلام پیش کیا جائے گا۔
    علامہ صاحب نے اس ضمن میں مذاہب میں ہتھیاروں کی نوعیت اور قسموں کے سلسلے میں بحث کی ہے اور انجیل اور قرآن سے ایٹمی ہتھیاروں کو ثابت کیا اور ان کی تباہ کاری کی وجہ دولت سے پیار اور روحانیت سے نفرت ہے۔ ان کے خیال میں روحانیت پرعمل اور مادہ پرستی سے کنارہ کشی ہی انسانیت کوجملہ تباہ کاریوں سے بچا سکتی ہے۔ انہیں خود روحانی مشن کے لئے خوابوں کی مدد ملتی رہی اور انہوں نے زندگی میں بے شمار سچے خواب دیکھے جن کی تعبیریں ان کے سامنے زندگی میں پوری ہوئیں اور اب کچھ بعد میں پوری ہو رہی ہیں۔

    (شوکت محمود اعوان جنرل سیکرٹری ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی http://www.oqasa.org 03009847582
    Back to Conversion Tool

    Urdu Home

  4. On 26/05/2016 - 16:17

    ایٹمی عمل Atomic phenomenonکی قرانی تشریح
    تحریر علامہ محمد یوسف جبریلؒ

    اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا: ۔
    ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ویل لکل الھمزہ۔ الذی جمع مالا و عددہ ۔ یحسب ان مالہ اخلدہ۔ کلا لیبذن فی الحطمہ۔ وما ادراک ماا لحطمہ۔ ناراللہ الموقدۃ التی تطلع علی الافئدہ۔ انھا علیھم موصدہ۔فی عمد ممددہ‘‘۔ (قران حکیم۔ سورۃ الھمزہ۔۱۰۴)
    ترجمہ:۔ ’’خرابی ہے ہر طعنہ دینے والے عیب چننے والے کی جس نے سمیٹا مال اور گن گن کر رکھا۔ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال سدا کو رہے گا اس کے سا تھ کوئی نہیں۔ وہ پھینکا جائے گا اس روندنے والی حُطَمَہ میں اور تو کیا سمجھا کون ہے وہ روندنے والی حُطمہ۔ ایک آگ ہے اللہ کی سلگائی ہوئی ۔ وہ جھانک لیتی ہے دل کو ان کو اس میں موند دیا ہے ۔لمبے لمبے ستونوں میں ‘‘ ۔(قرآن ۱۰۴ الھمزہ) ترجمہ شیخ الھند حضرت مولانا محمود الحسن علیہ الرحمت ۔
    اگر آپ ایٹمی سائنس دان ہیں یا فلسفی ہیں تو از راہِ کرم مندرجہ بالا قرآنی عبارت میں غور فرما کر ذرا اپنی طرف سے یہ اندازہ کرنے کی سعی فرمائیں کہ اس چھوٹی سی اور نہایت ہی سلیس عبارت میں کس قدر ایٹمی فینامینن کی تشریح و تعبیر موجود ہے اور کس قدر فرانسس بیکن کا جدید اٹامزم کافلسفہ ۔میر ا دعویٰ ہے کہ ان چند لفظوں میں قرآن حکیم نے اس جدید اٹامزم کے دور کا سارا فلسفہ اور اس جدید ایٹمی سائنس کی ساری ہی تشریح و تعبیر کر دی ہے اور ثبوت میرے وہ تقریباً تین ہزار صفحے ہیں انگریزی زبان میں جن میں مَیں نے اس سورۃ الھمزہ کی تشریح کی ہے ۔ بہر حال ملاحظہ ہوکہ یہ خصوصیات جو قرآن حکیم نے ایٹمی عملphenomenon کی بیان کی ہیں وہ بنیادی طور پر وہی خصوصیات ہیں جو ایٹمی عمل کو ہر دوسرے عمل مثلاً کیمیاوی یا برقی سے ممیز کرتی ہیں اور لازماًً جس طرح جدید بیکنی فلسفے اور قدیم یونانی اٹامزم کا چودہ صدیاں قبل بیان کرنا ایک معجزہ ہے اسی طرح ایٹمی فینامینن کی خصوصیات کا چودہ سو سال پہلے یہ بیان ایک معجزہ تھا تو آج بھی ایک معجزہ ہے۔ کوئی بھی سائنس دان یا فلسفی اس سے بہتر تشریح وتعبیر و تفسیر نہیں کر سکتا اور نہ کر سکا ہے نہ ہی کرسکے گا۔ کاش کہ آج آئن سٹائن بقید حیات ہوتا تو زندگی کا محیر العقول ترین انکشاف دیکھنے کی سعادت حاصل کرتا۔
    قرآن حکیم نے فرمایا۔ (۱) حُطَمہ( روندنے والا ۔ والی ) ۔ حُطَمَہ کے لفظی معنی ہیں کرشّرCRUSHER اس کی جذر ہے حطم جس کے معنی ہیں کسی چیز کو ریزہ ریزہ کر دینا۔ حُطَمہ کے معنی کان میں پڑتے ہی ہرسائنس دان کا ذہن لازماً جرمن اصطلاح برم سٹراھلنگBREMSTRAHLUNG کی جانب جائے گا۔ یہ ایک اصطلاح ہے جوجرمنوں نے سپیکٹرم آف ریز SPECTRUM OF RAYS کے لئے وضع کی اور سائنسی برادری سے بہت داد پائی کیونکہ اس اصطلاح کو تشریحی DESCRIPTIVE گردانا گیا کیونکہ اس کے لغوی معنی ہیں ’’توڑ پھوڑ والی ریڈی ایشن‘‘ یعنی BREAKING RADIATION مقصد یہ ہے کہ سائنس دان خود ایٹمی عمل کی اس توڑ پھوڑ والی خاصیت سے کماحقہ آگاہ تھا ۔ ایٹمی عمل میں ایٹم کے اندر ہونے والا عمل توڑ پھوڑ اور شکست و ریخت کا عمل ہے۔ یہی نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایٹمی توانائی ہی ایٹمی نیوکلس کے رابطے BINDING کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایٹمی توانائی دراصل ایٹم کی رابطہ توانائی یعنیBINDING ENERGY کا دوسرا نام ہے ۔ ایٹم کا رابطہ وہ ہے جس نے ایٹم کے نیوکلس کے مختلف اجزا کو باہم دیگرپیوست کر رکھا ہے جب یہ رابطہ ٹوٹتا ہے تو ایٹمی نیوکلس کے اجزا ٹوٹ جاتے ہیں بکھر جاتے ہیں اور ساتھ ہی اس وقت توانائی کا اخراج وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یاد رکھیئے کہ کوئی بھی کسی دوسری قسم کی توانائی، کیمیاوی یابرقی اس طریقے پر پیدا نہیں ہوتی۔ یہ صفت فقط ایٹمی توانائی سے ہی مخصوص ہے اور اسے ہر دوسرے عملphenomenon سے ممیز کرتی ہے۔ پھر ایٹمی عمل کی توڑ پھوڑ ایک خاص قسم اور ایک خاص حد تک عمل پیرا ہوتی ہے اور اس حد تک پہنچتی ہے جہاں کوئی دوسری قسم کا عمل نہیں پہنچ سکتا اور اسطرح ایٹمی عملPHENOMENON کو مکمل یعنی absoluteکرشر کہا جاسکتا ہے کیونکہ ایٹمی عمل میں توڑ پھوڑ ایٹمی مرکزے NUCLEUS تک پہنچتی ہے اور ایٹمی نیوکلس جب ایک بار ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے تو دوسرے کسی عمل کی توڑ پھوڑ کی مانند اسے دوبارہ اپنی اصلی حالت میں جوڑ دینا ناممکن ہے اور پھر ایٹمی عمل کی زد میں اس کائنات کا بنیادی پتھر یعنی ایٹم (ATOM) اور زندگی کی بنیادی اکائی یعنی خلیہCELL دونوں ہیں۔ جہاں ایک طرف ایٹم کا نیوکلس تہس نہس ہوجاتا ہے وہاں خلئے کا نیوکلس بھی ٹوٹ پھوٹ کر ہلاک ہوجاتا ہے۔ باقی کسی بھی عملPHENOMENON میں ایٹم یا خلئے کے نیوکلس کو چھوا تک نہیں جاتااس کے علاوہ ایٹمی تابکار شعاعیں بھی یہی راستہ اختیار کرتی ہیں۔ بے جان مادے کے ایٹموں کے نیوکلس پر حملہ آور ہو کر اور نیوکلس کی ہیئت میں تغیر و تبدل برپا کرکے وہ سرے سے ایٹم کی ہیئت ترکیبی ہی کو بدل کر رکھ دیتی ہیں اور جاندار مادے میں وہ خلئے کے نیوکلس پر حملہ آور ہوکر اس کے کروموسومز chromosomes کو تہہ و بالا کرکے خلئے کو ہلاک کردیتی ہیں اور اس کے علاوہ ایٹمی بم کے دھماکے کے تینوں حصے ہیcrusher کرشر ہیں۔ایٹم بم کی ہیٹ فلیشHeat Flash جانداروں کے دل پر ضرب لگا کر صدمے کے ذریعے اسے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ ایٹم بم کابلاسٹ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مضبوط ترین بلڈنگوں کو کرش کرکے اور ان کو غبار بنا کر خلا میں اچھال دیتا ہے اور ایٹمی بم سے پیدا ہونے والی تابکار شعاعیں حسبِ معمول بے جان اور جاندار مادوں میں ایٹموں اور خلیوں کوکچل کر رکھ دیتی ہیں۔
    اس کے علاوہ ایٹمی فزکس کی کسی معیاری درسی کتاب کو اٹھا کر دیکھیں تو وہ بمبارڈنگbombarding (بمباری)crushing (کچل دینا)smashing (تہ و بالا کر ڈالنا )hitting (ضرب لگانا) Breaking (توڑ دینا) وغیرہ جیسی اصطلاحوں سے مملو نظر آئے گی۔ اسی طرح ریڈیو بائیولوجی کی کوئی درسی کتاب کو پڑھ جائیں تو اس میںTARGET CONCEPT (ٹارگٹی نظریہ) ڈائرکٹ ایکشنDIRECT ACTION انڈائرکٹ ایکشن INDIRECT ACTIONبالواسطہ ایکشن SNAPPING THE CABLE WITH A BULLET (ڈوری کو گولی سے اڑا دینا) (کروموسوز کو توڑ دینا) Breaking the Chromosomes ’’تابکار شعاعیں خلیوں پر ہتھوڑے کی طرح ضرب لگاتی ہیں اور انہیں کچل کر رکھ دیتی ہیں‘‘) RADIATIONS HIT THE CELLS LIKE SLEDGE HAMMER AND CRUSH THEM کی قبیل کے محاورے ،اصطلاحیں ، تشبیہیں اور استعارے قدم قدم پر دیکھنے کو ملیں گے ۔ اس کے علاوہ لارڈ روتھر فورڈ RUTHERFORD کا وہ بیان بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو اس نے اپنے تاریخی تجربے ( جس میں اس نے سونے کی پتری پر الفا پارٹیکلز کی بمباری کی) کے بعد اپنی ڈائری میں لکھا ہے، وہ لکھتا ہے ۔ ’’ یہ اتنا ہی عجیب و غریب تھا جتنا کہ تم ایک پندرہ انچ والا گولہ کاغذ کے ایک پرزے پر چلا ؤاور وہ گولہ پلٹ کر تمھیں آ لگے ۔ یہ واقعہ میری زندگی کا عجیب ترین واقع تھا جو مجھے پیش آیا‘‘۔
    نوٹ کیجئے ۔ سونے کی پتری کو روتھر فورڈ نے کاغذ کا ٹکڑا کہا اور الفا پارٹیکل کو 15 انچ کے گولے سے تشبیہ دی اور اس طرح ایٹمی عمل کی اس کرشنگ والی حقیقت جس کا کہ قرآن حکیم نے چودہ صدیاں قبل بیان کیا ہے ۔ روتھر فورڈ نے بھانپ لی اوراپنی ڈائری میں رقم کر دی اس کے علاوہ قرآن حکیم کے حُطَمَہ یا اوتما اور سائنس دان کے اوٹما OTAMA میں جو صوتی اور عملی مماثلت موجود ہے اسے دیکھو اور حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاؤ۔ دونوں اصطلاحوں کی آواز ایک جیسی اور دونوں ہی ایک بنیادی عمل یعنی توڑ پھوڑ پر مبنی ہیں ۔آج اگر روتھر فورڈ موجود ہوتا اور قرآن حکیم کی یہ تشریح سنتا تو یقیناً اُ سے اپنے متذکرہ بالا تجربے کی نسبت کہیں زیادہ حیرت ہوتی ۔
    (۲) قرآن حکیم نے فرمایا۔’’ حُطَمَہ ایک آگ ہے اللہ کی سلگائی ہوئی‘‘۔ ایٹمی عمل ایک عمل ہے آگ پیدا کرنے کا مگر یہ جو فرمایا کہ آگ ہے اللہ کی تو اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ آگ کسی گناہ کے بدلے عذاب کی صورت میں نمودار ہوئی نیز یہ کہ اس کی حدت اور اس کا حجم اور دائرہ کار اتنا شدید اور اتنا وسیع ہے کہ اسے اللہ کی آگ کہا جا سکتا ہے۔
    (۳) قرآن حکیم نے فرمایا۔ ’’ حُطَمَہ ایک آگ ہے جو چڑھتی ہے دلوں پر‘‘۔ اب یہ خصوصیت بھی ایک ایسی خصوصیت ہے جو ایٹمی عملPhenomenon کو ہر دوسرے عمل از قبیل کیمیاوی یا برقی سے ممیز کرتی ہے۔واہ قران واہ اور یہ خصوصیت سوائے ایٹمی عمل کے کسی دوسرے میں موجود نہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ قران حکیم کا یہ نکتہ محض ایٹمی عمل کے نام لینے سے ہی پایہء اثبات کو پہنچ جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ ایٹمی عمل کا اصلی نام نیوکلر عمل ہے یعنی وہ عمل جس میں نیوکلس ملوث ہے۔ نیوکلر اسم صفت ہے نیوکلس کا اور اس کے معنے ہوئے وہ جو نیوکلس سے متعلق ہے اور نیوکلس کہتے ہیں مرکزے کو اور نیوکلس اور دل دونوں ہم معنی لفظ ہیں اور عربوں ہی نے نیوکلس کا ترجمہ قلب( دل) نہیں کیا۔ بلکہ خود سائنس دان نیوکلس کی بجائے دل کا استعمال بھی کرتے ہیں بلکہ ایٹمی فزکس کی معیاری درسی کتب میں بھی دل کو نیوکلس کی جگہہ استعمال کیا جاتا ہے۔بے شمار مثالوں سے ہم صرف دو پر اکتفا کریں گے۔
    (۱) ’’ ہر سریع ذرہ ایک منفرد ایٹم کے بالخصوص دل یعنی تابکار مادے کے نیوکلس سے اٹھتا ہے‘‘۔(حوالہ فزکس فزیکل سائنس سٹڈی کمیٹی دوسرا ایڈیشن ڈی سی ہیتھ اینڈ کو لیکسنٹن میسا چوسشزجولائی 1965 ء صفحہ 130) انگریزی عبارت یوں ہے۔
    Each fast particle comes from the break of the very heart of a single atom: the nucleus of the Radioactive substance.
    (ب)‘ ایک تابکار نیوکلس کی زندگی میں نیوکلرائی دل کی ضربات کتنی ہوں گی جو سیکنڈ کا اربواں حصہ قائم رہتا ہے ‘‘۔ (حوالہ محولہ با لا صفحہ21 مختصر سوالات)
    How many nulcear heartbeats are in the lifetime of a Radioactive nucleus which lasts only a billionth of a second “.
    ایڈورڈ ٹیلر (ہائیڈروجن بم کے صانع) نے1939 ء میں ایٹم کے دل سے توانائی حاصل کرنے کے موضوع پر لیکچر دیا۔ اُ س وقت تک کامیابی کے امکانات کچھ واضح نہ تھے۔ایٹمی عملAtomic Phenomenonکا پورے کا پورا عمل ہی ایٹمی نیوکلس میں محدود ہوتا ہے۔ یہ بات کسی دوسرے عمل میں نہیں بلکہ دوسرے کسی بھی عمل میں ایٹمی نیوکلس کو چھوا تک نہیں جاتا چھیڑا تک نہیں جاتا اور آخیر تک سلامت رہتا ہے۔ ایٹمی توانائی کی پیدائش خواہ وہ فژن کے طریقے پر ہو خواہ فیوژن کے قاعدے سے تمام کا تمام عمل نیوکلس کے اندر ہی ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ واضح اورمہتمم بالشان مظاہرہ آگ کے دل پر چڑھنے کے عمل کا تھرمونیوکلر Thermonuclear عملProcess میں ہوتا ہے۔ اس عمل کو عرفِ عام میں ہایئڈروجن بم کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں اندرونی فژن بم سے پیدا کی ہوئی حرارت (آگ ) کو بیرونی خول میں موجود ہائیڈروجن کے ایٹموں کے نیوکلائی دلوں پر پھینکا جاتا ہے گویا کہ آگ نیوکلیائی( دلوں) پر چڑھ رہی ہے۔ نیز دیکھئے یہ تھرمونیوکلر کی اصطلا ح ایٹمی آگ کی قرانی تعریف یعنی دلوں پر چڑھنے والی آگ کا عین سائنسی ترجمہ Scientific version ہے ۔ تھرمو کہتے ہیں حرارت کواور نیوکلیر کے ساتھ مطلب ہو گا نیوکلس سے متعلق حرارت یا دل سے متعلق آگ۔
    تابکار شعاعیں بھی بعینہ اسی دل پر چڑھنے والی خصوصیت کا طبعی طور پر مظاہرہ کرتی ہیں ۔ وہ بے جان چیزوں کے ایٹمی نیوکلیائی پر حملہ آور ہو کراور ایٹمی نیوکلیائی کی ابتدائی تکوینی ترتیب کو بدل کر ان ایٹموں کی قلبِ ماہیت کر دیتی ہیں۔ ایسامژدہ سونا بنانے والے کیمیا گروں کے لئے جانفزا ہوتا مگر ہیہات کہ اس طرح کسی سستی دھات کو سونے میں بدل دینے کا عمل تاحال ممکن نہیں ہوا۔ جاندار اجسام میں تابکار شعاعیں خلیوں کے نیوکلائی پر حملہ آور ہو کر ان کے کروموسومزChromosomes کو زیر و زبر کر دیتی ہیں۔
    ایک غور طلب امر جو میری تحقیق کے دوران میرے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ تابکار شعاعیں کسی بھی جاندار کے جسم میں دل اور ہر اس عضو جس کا تعلق دل سے ہو ،کے لئے ترجیحی کشش کا مظاہرہ کرتی ہیں مثلاً اولاََ یہ کہ وہ زندگی کے عمل میں موجود باہمی تعاون کو اُس سطح پر متاثر کرتی ہیں جو دماغ کے کنٹرول سے ورے ہے یعنی دماغ سے ورے کہیں زندگی کے دل کے قریب ہے۔ دوم یہ کہ ہڈیوں کا گودا اور باقی تمام خون پیدا کرنے والے اعضاء لازماً دماغ ،اعصاب اور عضلات کے مقابلے میں تابکاری کے اثرات کو زیادہ قبول کرتے ہیں اور ہڈیوں کے گودے اور خون پیدا کرنے والے اعضاء کا جو خونی رشتہ دل سے ہے وہ بالکل واضح ہے۔ سو م یہ کہ ایک سے زیادہ خلیوں والے نظام Organisms Multicellular ہمیشہ ایک خلیے والے نظاموںUnicellular organisms کے مقابلے میں تابکاری سے زیادہ تاثرپذیر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ اول الذکر کا دورانِ خون کا نظام اور تنفس کا نظام موخرالذکر کے مقابلے میں زیادہ مکمل ہوتا ہے اور دورانِ خون اور تنفس کا جو خونی رشتہ دل سے ہے وہ معلوم ہے۔ یہ نظریہ میرا ذاتی ہے اور کسی دوسرے سائنس دان کے حوالے سے نہیں لکھا گیا ۔ چہارم یہ کہ آکسیجن کی عدم موجودگی میں تابکاری شعاؤں کا اثر کم پڑ جاتا ہے۔ آکسیجن اور دل کے درمیان جو خونی رشتہ موجود ہے وہ بھی معلوم ہے۔ پنجم یہ کہ ایٹم بم کی ہیٹ فلیشHeat Flash جانداروں کے دل پر صدمہ لگا کر ان کو ہلاک کرتی ہے۔ ایٹمی عمل اور دل کے معاملے میں انگریز شاعر ورڈورتھ کا یہ چھوٹا سا شعر دلچسپی سے خالی نہیں۔ وہ کہتا ہے’’ افسوس کہ دل کی بنیادوں پر ابھرنے والے دستور کو ایک جھلملاتے ہوئے ایٹم کے سامنے معدوم کر دیا جائے ‘‘۔اس کے لفظ ہیں:۔
    To let a creed built in the heart of things Dissolve before a twinkling atomy
    (۴) قران حکیم نے فرمایا ’’ حُطَمَہ ایک آگ ہے بند کی ہوئی ان پر‘‘۔ بلاشبہ ایٹمی عمل Phenomenon میں گھیرا ؤکی خصوصیات واضح انداز میں موجود ہیں۔ ایٹمی بم کے دھماکوں کی الٹی دیگ جیسی ہیئت اور ایٹمی دھماکوں کے مقامی اور ساری زمین کو ڈھانپنے والے تابکاری کے غلاف در غلاف، اور ہڈیوں میں بیٹھنے والے تابکار مادوں کی ضد اور کینسروں کا تابکاری کے حملے کے چھ سے تیس ۳۰ برس کے بعد نمودار ہونا اور خلیے پر تابکاری شعاع کا حملہ استراحتی مرحلےRESTING STAGE میں ہونا مگر اثرات کا ANAPHASE کے مرحلے میں نمودار ہونا اور فقط کسی ایک عضو پر تابکاری کے حملے کے باوجود سارے جسم میں تابکاری کے اثرات کا پیدا ہو جانا اور تابکاری کی قاتل مقدار سے تابکار شدُ ہ ایسے مینڈکوں کا جنہیں نقطہء انجماد کے قریب قریب سردی میں رکھا جائے بجائے تین سے چھ ہفتے کی معینہ مدت میں مر جانے کے کئی مہینوں تک بقید حیات رہنا اور گرمی پہنچانے کی صورت میں فی الفور تابکاری اثرات کا نمودارہو جانا اور پھر ان مینڈکوں کا تین سے چھ ہفتہ کی معینہ مدت میں مر جانا اور الیگزنڈر ہیڈو کا یہ خیال کہ ہو سکتا ہے کہ کینسر پیدا کرنے والی اشیاء کا کینسر پید ا کرنے والا اثر نمو کے عمومی عمل میں طویل المیعاد مداخلت ہو اور تابکاری کا وہ گھیراؤ جووہ اپنے طویل المیعاد جنسی اثرات کے سبب انسانیت کا آنے والی نسلوں تک کرتی ہے اور وہ گھیراؤ جو وہ زندگی کو فنا کردینے کے بعد لاکھوں سالوں تک تابکاری مادوں کے بکھر جانے کی وجہ سے اس زمین کا کرتی ہے۔ چند ایسے مشاہدات ہیں جو بلاشبہ تابکاری کی گھیراؤ کرنے والی صفت کاثبوت مہیا کرتے ہیں۔
    (۵) قرآن حکیم نے فرمایا’’ لمبے لمبے ستونوں میں ‘‘۔ ایٹمی بم کے دھماکے سے منسلک ہونے والی امتیازی علامت یعنی لمبے ستون کے علاوہ ایٹمی عمل PHENOMENON کا اس ضمن میں ایک اور پہلو بھی ہے یعنی یہ کہ تابکاری کی دنیا کو بجا طور پر کھچے ہوئے ستونوں کے نام سے پکاراجا سکتا ہے ۔الفا پارٹیکل کی چار سنٹی میٹر اونچی اٹھان کوا گر ا لفا پارٹیکل کے حجم کے مقابلے میں دیکھا جائے تو یہ بلندی بھی ایک بہت اونچا ستون لگے گی ۔ایک فٹ بال اگر اپنے حجم کے مقابلے میں اسی نسبت سے اوپر اٹھے تو وہ آسمانوں کی بلندیوں میں گم ہو جائے اسی طرح اگر خلا سے آ نے والی تابکار شعاعوں COSMIC RAYS کو دیکھا جائے تو ان کی بلندیوں کے ستونوں کے تصور ہی سے انسانی ذہن چکرا جائے ۔یہ تطبیق بھی میری اپنی ہے۔ کسی سائنسدان کا اس زاویئے سے اس حقیقت کو دیکھنا نظر سے نہیں گذرا۔
    ( ۶) آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایٹمی جہنم کی منظر کشی کی:۔
    آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو آگ کے ڈھکنے اور آگ کی میخیں اور آگ کے ستون دے کر بھیجے گا۔ وہ جہنمیوں کوآگ کے ڈھکنوں سے ڈھانپ دیں گے اور ان کو آگ کی میخوں سے جڑ دیں گے۔ پھر ان کے اوپر آگ کے ستون کھینچ دیں گے۔ سارا ماحول اس قدر بند ہو گاکہ نہ تو فرحت کی کوئی مقدار ہی باہر سے اندر آ سکے گی نہ ہی دکھ کی کوئی مقدار اندر سے باہر جا سکے گی۔ اللہ تعالی اپنے عرش پر اُ ن لوگوں کو فراموش کر دیگا اور اپنی رحمت سے ان کو دور کر دے گا۔ جنت کے مکین اللہ تعالی کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہونا شروع کر دیں گے۔ جہنم کے مکین مدد کے لئے پکارنا بند کر دیں گے اور بات چیت ختم ہو جائے گی اورا ن کی بات چیت سانس اندر کھینچنے اور باہر نکالنے کی طرح ہوگی ‘‘۔ (تفسیرالجلالین)
    اب ایٹمی بم کے دھماکے کی اس سے بہتر تصویر تصور میں نہیں آ سکتی۔ ایٹمی بم کا دھماکا ایک الٹی دیگ کی طرح ہوتا ہے اور بد نصیب لوگوں کو اوپر سے ڈھانپ لیتا ہے ۔تابکاری شعاعیں آگ کی میخیں ہیں جن سے ان بد نصیبوں کو جڑ دیا جاتا ہے اور ایٹمی بم کے دھماکے کا کھچا ہوا ستون آگ کا ستون ہوتا ہے جو اُ ن کے اوپر کھینچ دیاجاتا ہے نیز اسی مثال کی تطبیق ایٹمی توانائی برائے امن کے اثرات پر بھی ہو سکتی ہے۔ ذرا سا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اعاذنا اللہ منھا و من سائر وجوہ العذاب۔ایٹمی توانائی برائے امن کے معاملے میں تابکاری شعاعیں تو ہوتی ہی ہیں اور ایٹمی توانائی کے مرکز اور تابکاری کے مادے اور تابکاری شعاعیں اس ساری دنیا کو لپیٹ بھی لیں گی اور ان کو تابکار شعاؤں کی میخوں سے جڑ بھی دیں گے اور پھر تابکاری کی دنیا ستونوں کی دنیا بھی ہے اور بعض مفسرین کرام نے تو لمبے لمبے ستونوں سے مراد لمبے زمانوں اور بڑی بڑی زنجیروں سے بھی لی ہے۔
    (۷) قرآن حکیم نے فرمایا ’’ کون تجھے سمجھائے کہ حُطَمَہ کیا ہے ‘‘۔ مفسرین کرام نے اس سوالیہ اندازِ بیان کو حُطَمَہ کی بے پناہ اور ناقابلِ بیان ہولناکی پر محمول کیا ہے اور یہ درست ہے ۔ اب اس عارضی، دنیوی حُطَمہ(ایٹمی جہنم) کے موجود ہو جانے پر جو مشاہدات ہوئے ہیں ان کی روشنی میں حُطَمَہ کی ہولناکی کے علاوہ ایٹمی سا ئنس کی بے پناہ اور ناقابلِ بیان پیچیدگی بھی اسی ضمن میں شمار ہو سکتی ہے۔ یہی سوال کہ تجھے کون سمجھائے کہ ایٹمی سائنس کیا ہے۔ اس دور کے ایٹمی سائنس دانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے اور لازماً اُ ن کا جواب ہو گا ’’کوئی نہیں‘‘۔
    ( ۸) یاد رہے کہ قران حکیم نے اس ایٹمی فینامینن جسے قران حکیم میں ایٹمی جہنم کے نام سے یاد کیا گیا ہے کا منطقی استخراج جدید بیکنی اٹامزم سے کیا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ جدید بیکنی اٹامزم کی وجہ سے ایٹمی جہنم پیدا ہو گا اب یہ بات کسی بھی ارسطو یا افلاطون کے بس کی بات نہیں۔ یہ دونوں حضرات اپنے زمانے میں قدیم یونانی اٹامزم کے سخت ترین مخالف تھے مگر قدیم اٹامزم سے جدید اٹامزم کا استخراج یاجدید اٹامزم سے ایٹمی فینامینن اور ایٹمی جہنم کااستخراج ان حضرات یا کسی انسان کے بس کی بات نہ تھی نہ ہے نہ ہو گی نیز یاد رہے کہ چودہ سو برس قبل قران حکیم کی جانب سے ایٹمی فینامینن کی سائنسی تشریح ایک ایسا معجزہ ہے جس کاانکار کسی بھی سائنس دان کے بس کی بات نہیں۔ اگرچہ سائنس معجزات کی منکر ہے ۔ اللہ تعالی کی مہربانی سے یہ قران حکیم کی معجزانہ پیشین گوئی کا انکشاف اس فقیر کے حصے میں آیا ہے اور نہ مغرب میں نہ مشرق میں کسی کو اس عظیم حقیقت کا کچھ علم ہے نیز یاد رہے کہ قران حکیم کی اس تشریحی تنبیہ کے ساتھ انسانیت کی تقدیر وابستہ ہے۔اس کی حیثیت ایٹمی آگ کے اس عالم گیر طوفان میں کشتیء نوح کی سی ہے اور اس جدید بیکنی سحر کاری کے لئے عصائے موسوی کا اثر رکھتی ہے۔

    ( ایٹمی جنہم بجھانے والا قرآنی فارمولا کتاب سے ماخوذ)

    ok 2016
    علامہ محمدیوسف جبریلؒ ۔یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان، قائد اعظم سڑیٹ نواب آباد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی پاکستان
    allamayousuf.net.
    http://www.oqasa.org
    Back to Conversion Tool

    Urdu Home

  5. On 13/06/2016 - 13:11

    انسانیت کا مستقبل اور انجام ایک عظیم ناامیدفلسفی کے نام ایک خط اور جواب
    تحر: علامہ محمد یوسف جبریلؒ
    1964 ء کا ذکر ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی دعوت پر معروف انگریزی مورخ سر سٹیفن رانسمین دو لیکچر دینے لاہور تشریف لائے۔ مجھے بھی دعوت نامہ ملا مگر دل میں کیاخیال آیا کہ سیدھا انگریز ہائی کمشنر کے پاس پہنچا ۔ہائی کمشنر سے مدعا بیان کیا کہ مجھے سر سٹیفن سے ملادیجئے ۔جواب میں ہائی کمشنر نے کہا سرسٹیفن تو بڑے آدمی ہیں ۔ملاقات کا امکان بہت کم ہے ۔جواباََ میں نے کہا جناب جانتا ہوں کہ سر سٹیفن بڑے آدمی ہیں لیکن کیا میرے ماتھے پر آپ نے پڑھ لیا ہے کہ میں چھوٹا آدمی ہوں۔ جناب میں محترم کو معاشرتی سٹیج پر نہیں علمی سٹیج پر ملنا چاہتاہوں البتہ اگرملاقات کے بعد سرسٹیفن آپ سے شکایت کریں کہ ان کاوقت ضائع ہواتو آپ سے معذرت کر لوں گا ۔ہائی کمشنر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودارہوئی اور کہا ۔اچھا آ پ سینٹ ہال میں پہنچ جائیں وہاں سرسٹیفن صاحب کا لیکچر ہورہا ہے۔ آپ اگلے بنچوں پر بیٹھیئے۔ تقریر کے بعد جب بھیڑ چھٹ جائے گی تو میں آپ کو اشارہ کروں گا ۔آپ آ جائیئے گا۔ میں ملوادوں گا۔ سر سٹیفن تقریر کر رہے تھے وہ کرتے رہے اور میں نے سات فل اسکیپ صفحات پر مشتمل ایک خط برٹرینڈ رسل صاحب کے نام لکھ ڈالا، خط کو لکھ کر لفافے میں بند کیا ۔ پتہ لکھا اور ادھر تقریر ختم ہوئی ۔لوگوں کے سوالات کئے جواب ملے اور بھیڑ چھٹ گئی تو ہائی کمشنر صاحب نے مجھے اشارہ کیا ۔میں آگے بڑھا ۔ ہائی کمشنر نے ہلکا سا تعارف کرایا۔ سر سٹیفن نے ہاتھ بڑھایا مصافحہ ہوا اور بڑی خوش خلقی سے پوچھا ۔میں آپ کی کیاخدمت کر سکتا ہوں ۔میں نے کہا سر مجھے اجازت دیں کہ اعتراف کروں کہ میں نے قطعاََ آپ کی تقریر نہیں سنی بلکہ میں توآپ کے ہم وطن فلسفی برٹرینڈ رسل کو خط لکھتا رہا اور آپ سے متوقع ہوں کہ آپ یہ خط اپنے ہم وطن کو بہ نفس نفیس جا کر پہنچائیں گے ۔سرسٹیفن نے بڑی خوش اسلوبی سے وعدہ کیا اور میں نے رخصت لی۔
    ٹھیک ایک ماہ بعد رسل کا جواب دہلی (انڈیا) سے گھوم گھام کر مجھے ملا ۔چونکہ رسل کے سیکرٹری نے پتے میں لاہور (انڈیا) لکھ دیا تھا ۔ میں نے اپنے خط میں رسل کو دنیا کے موجودہ حالات میں ابدی تباہی سے بچنے کی صورت یہ بتائی تھی کہ لوگ اسلام قبول کرکے اس پر کماحقہ کاربند ہو جائیں اور میں نے اس کے لئے واضح دلائل پیش کئے تھے ۔اس نے جوابا مجھے ایک چھوٹا ساسنہری کاغذ پرلکھا ہوا یک پمفلٹ بھیجا جو بعینہ آج بھی میرے پاس وجود ہے۔ جس میں ایک فقرہ لکھاتھا۔
    “Since Adam and Eve ate the apple, man has never refrained from any folly of which he was capable of,and the end is atomic destruction”.
    ترجمہ: ’’ جب سے آدم اور حوا نے گندم کادانہ کھایا۔ آدمی نے کسی ایسی حماقت کے ارتکاب سے جس کے کرنے کا وہ اہل تھا کبھی اجتناب نہیں کیا اورانجام ہے ایٹمی تباہی‘‘ پہلے فقرے کے ساتھ آدم اور حوا کے کارٹون ہیں جن میں انہیں گندم کا دانہ کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ دوسرے فقرے کے بعد میں جنگ و جدل کامنظر ہے اور ایک آدمی دوسرے آدمی کو گدھابنا کر اس پر سواری کررہا ہے۔ تیسرے فقرے کے ساتھ ایٹمی دھماکے کی ایک عالی شان تصویرہے۔ یہ تھا گویا جواب ایک عظیم فلسفی جو جو انسانی انجام سے قطعا ناامید ہوگیا تھا۔ خط ایک ناامید فلسفی کاایک پر امید فلسفی کو۔میں نے خط و کتابت کے دوران رسل کو یہ باور کرنے کی سر توڑ کوشش کی کہ ایٹمی جنگ کے خلاف جو آپ نے اپنی قابل تعریف جدوجہد شروع کر رکھی ہے تو اس شرمناک تباہی سے انسانیت کو بچانے والی اگر کوئی طاقت ہے تو اسلام ہے ۔میں نے اسے سمجھایا کہ اہل مغرب نے علم کے حصول میں اہل اسلام کی نقالی کی مگر اسلام پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے اوراسلامی تعلیمات کی باطنی حقیقت سے بے خبری کے سبب غلط فہمی کاشکار ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کی شان و شوکت کو دیکھا اور سمجھ بیٹھے کہ اسلام فقط مادی اقدار کا حامی ہے اور اسلام مادی ترقی ہی کادوسرا انام ہے۔ ادھر عیسائیت کی شدید یکطرفہ روحانیت اور دنیا کے ساتھ بیزاری کے ساتھ ساتھ پادری کے جوروستم نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسلام میں دین ودنیا اور روحانیت و مادیت کا جو رشتہ ہے اور جس طرح خوش اسلوبی سے اسلام نے دنیاکو دین کے اور مادیت کو روحانیت کے اور دنیاکو آخرت کے ماتحت کیا ہے سمجھ نہ پائے اور یکسر دین سے بغاوت کاعلم برپا کرکے دنیاکو اپنا ملجا اور سائنس کو اپنا ماوا سمجھ بیٹھے۔ دین کے انکار اور دنیاکی محبت نے آخرت سے بیزارکر دیا ۔ سائنس نے انجن بنایا ۔ انجن سے کارخانہ بنا ۔کارخانہ سے سرمایہ داری نظام وجود پذیر ہوا اور طبقاتی جنگ چھڑی۔ مغرب نے ایک بار پھر اسلام کی نقالی کی اور اسلامی مساوات کواپنانے کی کوشش کی مگر نیتجے میں سوشلزم نمودار ہوا۔ سرمایہ داری اور سوشلزم نے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ لگایا۔ سائنس نے ایٹم بم مہیا کیا۔ امن و سکون پہلے سے مفقود تھا لگے ایٹم بم کی تیاری میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے۔ اب اس باہمی منافرت اور ایٹمی افراط کے ماحول میں ایٹمی جنگ سے بچائے کون؟ آخرت پر ایمان نہیں اس لئے روحانی قدریں مفقود ۔ روحانی قدریں مفقود ہیں اس لئے اخلاقی قدریں ناپید ہیں اور مساوات نہیں ۔مساوات نہیں اس لئے معاشی انصاف نہیں معاشی انصاف نہیں تو سرمایہ داری ہے سوشلزم اور سرمایہ داری میں اتفاق معدوم ہے اور مخالفت لازم اس لئے باہمی جنگ و جدل کا خطرہ لاحق ۔ باہمی جنگ و جدل ناگزیر ہے اس لئے ایٹمی جنگ جنگ کا خطرہ لازم۔ کیونکہ ایٹم بم دونوں کے پاس افراط سے ہیں۔ یورپ کے لوگ اگر اسلام قبول کر لیں اور آخرت پر ایمان لائیں تو روحانی قدروں کے قا ئل ہوں تو اخلاقی قدروں کی طرف مائل ہوں اخلاقی قدروں کے قائل ہوں تو اخلاقی قدروں کی طرف مائل ہوں اخلاقی قدروں کی طرف مائل ہوں تو اسلامی مساوات کانفاذ قبول کر لیں ۔اسلامی مساوات کانفاذ ہو تو سرمایہ داری کی لعنت ختم کیمونزم ختم تو پھر دشمنی کون کرے دشمنی نہ رہے توایٹم بم کون چلائے کس پر چلائے۔
    علم ایک ابر شفاف ہے اس لے سینے میں اگر آفتاب ایمان و یقین شعاع خیز ہوتو یہ دین منور کاایک فلک تاب مرقع ہے ورنہ ایک خوفناک گھٹا۔ زمانہ ماضی کے اسلامی اہل فضل و کمال کاعلم آفتاب ایمانی سے منور تھا۔ا نہوں نے انسانیت کی منزل عقبی ہی کی طرف رہبری نہیں کی بلکہ اس کی دنیا کو بھی سرورو طمانیت کارنگ دیا۔مگر مغربی حکماء نے فقدان ایمانی کے سبب اپنی حکمت کو دجالیت سے ملوث کر کے انسانیت کی دنیاتباہ اور آخرت برباد کرکے رکھ دی۔ مقصود آفرینش کاتعین ہی انسانیت کی منزل اور عالم کے علم کارخ متعین کرناہے۔ اسلامی حکماء کی نگاہ میں مقصود آفرینش آخرت تھی ۔مغربی حکماء کی نگاہ میں یاتو مقصود دنیا ہے یا کچھ مقصود ہے ہی نہیں اور یہی خصوصیت انہیں علمی مرتبے سے قعر مذلت میں گرادیتی ہے۔ وہ علمی بلندیوں کے باوجود اہل نظر کے قرین مطعون ہیں۔ مقصود الفاظ و مسائل نہیں نگاہ ہے۔ اقبالؒ سے میری والہانہ شیفتگی اور حضرت محدث دہلویؒ کے لئے میرے بے پناہ احترام سے صرف نظر آسمان علم کی انتہائی بلندیوں پر اٹھنے والے مغربی حکماء کی طویل فہرست میں مجھے ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا جسے میں حضرت اقبالؒ کا مثیل یا حضرت محدث دہلویؒ کی نظیر کہہ سکوں۔مجھے ان علمی پہاڑوں کی تہہ میں بے قرار لاوے کے اثرات نظر آتے ہیں ۔مغر بی فلسفے کو میں نے عبث اور مغربی تہذیب کو ناپسندیدہ پایا ہے ۔ مشرق کبھی مغرب میں مدغم نہ ہو سکے گا بلکہ خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جائے گی۔ مسلمان قوم کی کمزوریاں عارضی اور اوصاف پائیدار ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ مغربی تہذیب اور دور جدید کے مقابل ہو جائیں گے۔ مسلمانوں میں بے پناہ صلاحتیں موجود ہیں۔مسلمان عنقریب سائنس کو مذہب کے ماتحت کر لیں گے۔ سائنس مشرف بہ اسلام ہو جائے گی ۔معاشی انصاف آیا تو غریبوں میں بھرپور بو علی سینا پیدا ہوں گے ۔الحق کہ اسلام کی واپسی آج کی دنیاکا شدید تقاضا ہے۔اسلام عنقریب اس دنیا میں نمایاں ہو کر آئیگا اور مسلمان جلد از جلد اپنے بین الاقوامی کردار کو پالیں گے۔ برٹرینڈ رسل اس دور کے عظیم انسان تھے۔ چھیاسٹھ کتابیں تصنیف کیں۔ انسانی ہمدردی ، خوش خلقی، نرم دلی، حق گوئی،جرات اخلاقی اور بے باکی آپ کو شیوہ تھیں۔ ۱۹۶۵ ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ نے واشگاف الفاظ میں پاکستان کے موقف کی حمایت کی تھی۔

    علامہ محمد یوسف جبریلؒ ،
    یوسف جبریل فاؤنڈینش پاکستان
    ؒ قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی پاکستان
    http://www.oqasa.org
    Back to Conversion Tool

    Urdu Home

  6. On 27/07/2016 - 17:36

    آنحضور ﷺ نے ایٹمی جہنم کی منظر کشی کی
    فرمایا :۔ ’’ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو آگ کے ڈھکنے اور آگ کی میخیں اور آگ کے ستون دے کربھیجے گا۔ وہ جہنمیوں کو آگ کے ڈھکنوں سے ڈھانپ دیں گے اور ان کو آگ کی میخوں سے جڑ دیں گے پھران کے اوپر آگ کے ستون کھینچ دیں گے ۔سارا ماحول اس قدر بند ہو گا کہ نہ توفرحت کی کوئی مقدار باہر سے اندر آ سکے گی۔ نہ ہی دکھ کی کوئی رمق اندر سے باہر جا سکے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ان لوگوں کو فراموش کردے گا۔ اور اپنی رحمت سے ان کو دور کر دے گا۔ جنت کے مکین اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوناشروع کردیں گے۔ جہنم کے مکین مددکے لئے پکارنا بند کردیں گے۔ اور بات چیت ختم ہو جائے گی اوران کی بات چیت اس طرح ہوگی ۔ جس طرح سانس کو اندر باہر کھینچا جاتاہے‘‘۔ (تفسیر الجلالین)
    اب ایٹمی دھماکے کی اس سے بہتر تصویر تصور میں نہیں آ سکتی۔ ایٹمی بم کا دھماکہ ایک الٹی دیگ کی طرح ہوتا ہے۔ اور بدنصیب لوگوں کو اوپر سے ڈھانپ دیتا ہے۔ تابکاری شعاعیں آگ کی میخیں ہیں۔ جن سے ان بدنصیبوں کو جڑ دیا جاتا ہے۔ اور ایٹمی دھماکے کا کھچا ہوا ستون آگ کاستون ہوتا ہے۔ جو ان کے اوپر کھینچ دیاجاتاہے۔
    (علامہ محمد یوسف جبریل)
    یوسف جبریلؒ فاؤنڈیشن پاکستان، قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی
    ایم اویس پرنٹر منی مغل مارکیٹ دوکان نمبر ۵، مین بازار نواب آباد واہ کینٹ ملک ناصر محمود
    http://www.oqasa.org

    Back to Conversion Tool

  7. On 29/08/2016 - 17:05

    حطمہ
    بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ویل الکل الھمزہ لمزہ ۔ ن الذی جمع مالا و عددہ ۔ یحسب ان مالہ اخلدہ ۔کلا لیبذن فی الحطمہ ۔وما ادراک مالحطمہ ۔ناراللہ الموقدہ التی تطلع علی الافئدہ ۔انھا علیہم موصدہ ۔ فی عمد ممددہ (القران ۱۰۴ ) ترجمہ مندرجہ ذیل ہے ۔’’خرابی ہے ہر طعنہ دینے والے ۔عیب چننے والے کی جس نے مال سمیٹا ۔اور گن گن کر رکھا ۔خیال کرتا ہے ۔کہ اس کا مال سدا رہے گا اس کے ساتھ ۔ہرگز نہیں وہ پھینکا جائے گا ۔ اس روندنے والی حطمہ میں ۔اور تو کیا سمجھا ۔کون ہے وہ روندنے والی ۔ایک آگ ہے ۔اللہ کی سلگائی ہوئی۔ جو چڑھتی ہے دلوں تک ۔وہ بند کی ہوئی ہے آگ ان پر ۔لمبے لمبے ستونوں میں ۔ (الھمزہ ۱۰۴ )۔قران حکیم نے حطمہ کی بنیادی خصوصیات بیان فرمائی ہیں ۔یہی ایٹمی توانائی کی بنیادی اور امتیازی خصوصیات ہیں جو اسے کیمیا ئی توانائی سے ممیز کرتی ہیں ۔ قران حکیم نے لفظ حطمہ کا استعمال کیا ہے ۔ حطمہ ایک جہنم ہے ۔ اگلی دنیا میں ایک مخصوص قسم کی آگ کا ۔ دوسری قسم کی آگوں کے درمیان اور اس آگ کی بنیادی اور امتیازی خاصیتیں جو قران حکیم نے بیان فرمائی ہیں اور جو حطمہ کی آگ کو دوسری قسم کی جہنمی آگوں سے ممیز کرتی ہیں ۔ وہی خاصیتیں ایٹمی توانائی کی بنیادی اور امتیازی خاصیتیں ہیں ۔ جو اسے دوسری قسم کی توانائیوں سے ممیز کرتی ہیں ۔www.oqasa.org http://www.allamayousuf.net (یوسف جبریل)

    Back to Conversion Tool

    Urdu Home

  8. On 18/12/2016 - 18:00

    سورۃ الھمزہ اور حطمہ جناب علامہ عنایت اللہ المشر قی اور مولانا فتح محمد جالندھری کی نظر میں
    تفسیر احسن میں سورۃ الھمزہ کی تفسیر موجود ہے ۔ لکھتے ہیں :۰
    حیف ہے ہر غیبت کرنے والے اور طعنے دینے والے شخص پر، جو صرف مال پر مال جمع کرتا رہتا ہے اور پھر اس کو گنتا اور خوش ہوتا رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہی اس کو ہمیشہ رکھے گا۔ ہر گز نہیں وہ ضرور کسی نہ کسی دن اسی مال جمع کرنے اور اس کو قوم کی بہتری کے لئے خرچ نہ کرنے کی بدبختی اور بدکرداری کے باعث جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور اے محمد ﷺ تو کیا سمجھتا ہے کہ یہ جہنم کیا ہے۔ یہ خدا کی طرف سے قوم کے دلوں میں ناکامی، مایوسی اور شکت کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو آہوں اور کراہوں سے جو دلوں سے اس وقت اٹھتی ہیں دلوں پر چڑھ چڑھ کر ان کے جذبوں اور ارادوں کو بھسم کر دیتی ہے ۔ بے شک وہ آگ چاروں طرف سے ان کو گھیر لے گی۔ لمبے لمبے ستونوں کے ذریعے سے‘‘۔
    تفسیر :۔
    سورۃ الھمزہ میں کیفیت اس نابکار قوم کی پیش کی گئی ہے جس کے لوگوں کا واحد منشا مال جمع کرنا اور گن گن کر رکھنا ہے۔ ایسی قوم لامحالہ محکومیت اور مغلوبیت کے جہنم میں ہے اور چونکہ حطمہ کے معنی چکنا چور ہوئی ہوئی شے ہے، مقصد یہ ہے کہ وہ قوم شکست و ریخت، انتشار و تشتت کے گڑھے میں گری ہوئی ہے اور اس کے افراد چاروں طرف سے ایک ایسی آگ میںگھرے ہوئے ہیں جو دلوں پر چڑھ چڑھ کر ان کو کباب کر دیتی ہے۔ گویا وہ لوگ محکومیت، ذلت اور غلامی کی آہوں اور کراہوں میں جل بھن کر حسرتیں کرتے رہتے ہیں کہ اے کاش ہم بھی آزادی اور غلبے کی ہوا کھاتے ۔وہ اس ماحول سے اس لئے نہیں نکل سکتے کہ ان میں قربانی مال کا جذبہ نہیں۔
    (تفسیر احسن صفحہ ۹۸۳)

    یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
    http://www.oqasa.org

  9. On 06/03/2018 - 14:48

    آنحضور ﷺ نے ایٹمی جہنم کی منظر کشی کی
    فرمایا :۔ 146146 اللہ تعالیٰ فرشتوں کو آگ کے ڈھکنے اور آگ کی میخیں اور آگ کے ستون دے کربھیجے گا۔ وہ جہنمیوں کو آگ کے ڈھکنوں سے ڈھانپ دیں گے اور ان کو آگ کی میخوں سے جڑ دیں گے پھران کے اوپر آگ کے ستون کھینچ دیں گے ۔سارا ماحول اس قدر بند ہو گا کہ نہ توفرحت کی کوئی مقدار باہر سے اندر آ سکے گی۔ نہ ہی دکھ کی کوئی رمق اندر سے باہر جا سکے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ان لوگوں کو فراموش کردے گا۔ اور اپنی رحمت سے ان کو دور کر دے گا۔ جنت کے مکین اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوناشروع کردیں گے۔ جہنم کے مکین مددکے لئے پکارنا بند کردیں گے۔ اور بات چیت ختم ہو جائے گی اوران کی بات چیت اس طرح ہوگی ۔ جس طرح سانس کو اندر باہر کھینچا جاتاہے145145۔ (تفسیر الجلالین)
    اب ایٹمی دھماکے کی اس سے بہتر تصویر تصور میں نہیں آ سکتی۔ ایٹمی بم کا دھماکہ ایک الٹی دیگ کی طرح ہوتا ہے۔ اور بدنصیب لوگوں کو اوپر سے ڈھانپ دیتا ہے۔ تابکاری شعاعیں آگ کی میخیں ہیں۔ جن سے ان بدنصیبوں کو جڑ دیا جاتا ہے۔ اور ایٹمی دھماکے کا کھچا ہوا ستون آگ کاستون ہوتا ہے۔ جو ان کے اوپر کھینچ دیاجاتاہے۔
    (علامہ محمد یوسف جبریل)
    یوسف جبریلؒ فاؤنڈیشن پاکستان، قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی
    ایم اویس پرنٹر منی مغل مارکیٹ دوکان نمبر ۵، مین بازار نواب آباد واہ کینٹ ملک ناصر محمود
    http://www.oqasa.org

    Back to Conversion Tool

  10. On 07/03/2018 - 16:43

    ایٹمی جہنم۔۔یوسف جبریل
    “اس دنیوی ایٹمی جہنم (ایٹم بم اور ایٹمی تابکاری) کی پیدائش کے اسباب و علل وہی ہیں جو قرآن حکیم میں حطمہ کی آگ میں ڈالے جانے کی استحقاق کی بتائی ہیں۔ یعنی عیب جوئی، زراندوزی اور دولت کی ہمشیگی کا یقین۔ اس لئے لازماً وہ لوگ جو اس دنیوی ایٹمی جہنم کی سزا کے استحقاق کے باوجود اس سے یچ نکلیں گے۔ وہ کسی صورت بھی اگلے جہاں کے لازوال اور ابدی حطمہ ( ایٹمی جہنم) سے بچ نہیں سکیں گے۔ یہ دنیوی ایٹمی جہنم اگلی دنیا کے حطمہ کا ایک پر تو ہے۔ تذکرہ ہے۔ آج اس دور کے انسان کے لئے اس حقیقت سے زیادہ فکر انگیز حقیقت متصور نہیں ہو سکتی۔ روئے زمین پر موجود ہر شے اس حقیقت میں ڈوب جاتی ہے۔
    ڈاکٹر علامہ محمدیوسف جبریل
    یوسف جبریل فاؤنڈیشن پاکستان
    http://www.oqasa.org

  11. On 16/01/2020 - 14:01

    غلبۂ روم کی تاریخ انسانی کی ایک محیر العقول پیشن گوئی
    تحریر علامہ یوسف جبریلؒ
    انسان کی تاریخ میں سات پیشین گوئیاں سب کی سرتاج ہیں۔ پہلی وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بشارت دی کہ تیری نسل سے نبی اور بادشاہ پیدا کروں گا اور تیری نسل کے صدقے میں دنیا کی قوموں کو نجات دوں گا۔دوسری توریت میں ہے کہ اے موسی! میں تیرے چچیرے بھائیوں سے تیرا مثیل نبی پیدا کروں گا۔ تیسری انجیل میں ہے جبکہ حضرت عیسیٰ روح اللہ نے اپنے حواریوں سے فرمایا۔”میرے بعد ایک نبی آئیگا۔ اسکا نام احمد ہوگا۔میں جاؤں گا تو وہ آئیگا۔ وہ مکمل حق بتائے گا“۔ چوتھی قرآن حکیم میں ہے کہ ”مغلوب رومی ایرانیوں پر چند سال میں غالب آجائیں گے“۔ پانچویں پیشن گوئی بھی قرآن حکیم میں ہے جو کہ ایٹم بم کے بارے میں ہے۔ چھٹی پیشن گوئی نبی آخرالزمانؐ نے فرمائی جو دجال کے متعلق ہے۔ ساتویں پیشن گوئی وید میں ہے جو کہ حضرت محمد ﷺکے بارے میں ہے کہ ان کا نام مہامت (محمدؐ) ہوگا۔ وہ بہت دلیر ہوگا۔ وہ کھجوروں والے شہر میں ہوگا۔ اس کے دیس والے تہبند اور پگڑی باندھتے ہوں گے“۔ یہ تمام پیشین گوئیاں اپنی عظمت وندرت کے لحاظ سے بے مثل ہیں مگر ان میں جو پیشین گوئی مغلوب رومیوں کے غلبے کے متعلق ہے۔ وہ تو گویا ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہے اور سورۃروم کی ابتدائی آیات میں ہے۔ روم اور ایران کی ایک طویل جنگ کے نتیجے کے بارے میں ہے اور مغلوب رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ کی بشارت دی گئی ہے۔ فرمایا۔”کہ رومی بضع سنین (تین سے نو سال) کے عرصے میں پھر غالب آجائیں گے“۔ کہنے کو تو ایک بات ہے مگر دراصل اس کا عرصہ اتنا قلیل ہے کہ اس کا حصول ظاہراًاس درجہ ناممکن الواقع۔ غلط ثابت ہوجانے پر (خدا نخواستہ) اس کے عواقب اس قدر دوررس اور خطرات اس حد تک سنگین تھے کہ بجاہوگا۔ اگر کہا جائے کہ گویااسلام، پیغمبراسلام، قرآن حکیم اور قرآن حکیم کے ہمراہ ساری کائنات اس ایک نقطے میں سمٹ کررہ گئی تھی۔ پیشین گوئی سچ ثابت ہوجائے تو قرآن حکیم کی صداقت مسلم اور بالفرضِ محال معاملہ دگرگوں ہوجائے تو سارا دعویٰ ختم۔منکرین تو منکرین، خود مسلمان دل برداشتہ ہوکر گھر بیٹھ رہتے۔فرق اس قدر ہے کہ مخالفین کو کچھ عرصہ طعن و تضحیک کا اچھا خاصا سامان مہیا ہوجاتا مگر مسلمان کفِ افسوس ملتے نظر آتے کہ یا الہیٰ!یہ سب کچھ کیا ہوگیا۔ معاملے کی سنگینی ملاحظہ فرمائیے اور دیکھئے کہ دین اسلام کن دشوار گذار گھاٹیوں سے گزر کر پایہء اثبات کو پہنچا ہے مثلا تصور کیجئے کہ آج دنیا بھر کے اخباروں میں ایک خبر آناََفاناََ ابھرتی ہے کہ ایک شخص غیب دانی کا مدعی اٹھا ہے۔اور اس کا شدت کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا والے بھی اسے ایسا ہی کہیں۔اپنے اس دعوے کے ثبوت میں اس نے منادی کی ہے کہ آئندہ نو گھنٹوں کے اندر پہا.ڑ غائب ہو جائیں گے،سمندر خشک ہو جائیں گے، تارے جھڑ جائیں گے،قطب شمالی قطب جنوبی سے تبدیل ہو جائے گا۔ ہوا نابود ہا جائے گی۔ چاند اور ستارے تاریک ہو جائیں گے۔ زمین پتھر ہو جائے گی۔ زلزلے کے ایک جھٹکے سے روئے زمین کے لوگ اوندھے منہ گر جائیں گے۔ لوگ اس منادی کو سن کر دم بخود ہیں۔ دنیا بھر کے ریڈیو، اخبار اور ٹیلی ویژن نے باہمی استفسارات کا طوفان اٹھا رکھاہے۔ پیکنگ بحرین سے پوچھتا ہے۔آیا سمندر باقی ہے یا خشک ہو گیا ہے۔ عدن ماسکو سے پوچھتا ہے کہ قطب شمالی جنوب کی طرف چل پڑا ہے یا نہیں یا ابھی کچھ دیر باقی ہے۔ کراچی واشنگٹن سے پوچھتا ہے کہ تاروں کے نور میں کمی تو نہیں آ رہی۔ بیمار بوڑھا کہہ رہا ہے کہ خدا خبر میری نظر کمزور ہو رہی ہے یا سورج اندھا ہو رہا ہے۔ لوگ گھروں اور سڑکوں پر چکر ا کر گر رہے ہیں۔ کسی کو راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ کوئی ہوا کی کمی محسوس کرکے لمبے لمبے سانس لے رہا ہے۔ کسی کو آسمان ڈوبتا نظر آرہا ہے مگر خدا خدا کرکے یہ قیامت انگیز نو گھنٹے گزر گئے تو لوگ ایک دوسرے کی طرف تکتے ہیں کہ ایں!کچھ ہوا تک نہیں۔بتایئے آپ اس غیب دانی کے دعوے دار کو کہاں تلاش کریں گے؟اس ایک مثال پر قران حکیم کی اس خطرناک پیشین گوئی کو قیاس کر لیں۔
    جب قران حکیم نے رومی غلبے کی پیشین گوئی کی۔اس وقت حالات یہ تھے کہ سلطنت روما کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی۔ خود روما کا دارالخلافہ محاصرے میں تھا۔ہرکلیس قیصر روم گھبراہٹ کے عالم میں شہر کے لرزاں درودیوار پر حسر ت کی نگاہ ڈالتا ہے اور شہر کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ کر عملََاراہ فرار اختیار کر چکاتھا اور مشرکین مکہ اہل کتاب رومیوں کی شکست اور آتش پرست ایرانیوں کی فتح کی خوشی میں دیوانہ وار مسلمانوں کے خلاف اپنی فتح کے خواب دیکھ رہے تھے۔ حتی کہ مسلمانوں کے خلاف ان کی منتقمانہ سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہو رہی تھیں۔ عین اس وقت اللہ کو اللہ کہنے اور محمد ﷺ کو نبی ماننے کی پاداش میں شہر بدر ہونے اور تین برس سے شعب ابی طالب کی بے آب و گیاہ گھاٹی کے اندر محصور اور مجبور فاقہ کش، بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچوں کی دلدوز چیخیں فضائے نیم شبی کی خاموش تاریکیوں کو چیر کر مکے کے سنگ دلوں پر بے اثر ثابت ہوتی تھیں۔ اپنے نبی کریمﷺ کی زبانی، خوش خبری کی صورت میں اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی یہ پیشین گوئی سنتے ہیں۔ادھر مشرکین اس ارسطوانہ منطق میں مگن ہیں کہ ایرانی بھی مشرک ہم بھی مشرک۔ رومی بھی اہل کتاب مسلمان بھی اہل کتاب۔ایرانی جیت رہے ہیں لہذا ہم بھی جیتیں گے۔ رومی ہار رہے ہیں لہذا مسلمان بھی ہم سے ہاریں گے۔
    پیشین گوئی اتری۔اس اثناء میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کسی کام سے مکہ گئے توابی ابن خلف سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ وہ راندہء درگاہ اسی تاک میں رہتا تھا۔ یہ وہی ملعون ہے کہ جب بھی آنحضرتﷺ ایک راہ سے گذرتے تو یہ تاک میں رہتا تھا۔ اس نے ایک بچھڑا پال رکھا تھا۔وہ ساتھ ہوتا تھا اور آپﷺ سے کہتا۔ محمد ﷺ! جانتے ہو کہ یہ بچھڑا میں نے کیوں پال رکھا ہے؟ حضور اکرم ﷺ فرماتے۔ مجھے کیا خبر تووہ ملعون کہتا کہ جب یہ گھوڑا بنے گا تو اس پر سوار ہو کر تجھے اپنے نیزے سے قتل کروں گا۔ آنحضور ﷺ خاموش ہو کر گذر جاتے۔ بالآخر ایک دن اس نے یہی کلام دہرایا۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ تو اس گھوڑے پر سوار ہو گا اور میں تجھے نیزے کی انی سے قتل کروں گا۔ آج بھی حسب عادت حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ٹھٹھا کرنے لگا کہ تمہارا صاحب ﷺ آج کل کیا بے پرکی اڑا رہا ہے۔ بھلا رومی بھی کبھی اب غالب آ سکتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓجو کہ صدیق تھے نے سناتو شرط باندھ دی۔ دس اونٹ اور تین سال۔ واپس شعب ابی طالب لوٹے تو حضورﷺ سے اپنی شرط کا تذکرہ کیا۔ آپْﷺ نے فرمایا۔ ابوبکر ؓ! جاؤ اور اونٹ دس کی بجائے سو کر دو اور مدت تین سال کی بجائے نو برس کر دو۔ پس حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمان رسالت کی بجا آوری میں ابی ابن خلف کے پاس جا کر شرط میں ترمیم کردی۔
    ادھر مکے سے اللہ کی پیشین گوئی کا نزول ہوا۔ادھر روم میں معجزہ رونما ہوا۔قیصر شمالی افریقہ کی جانب بھاگ رہا تھا۔ سامان سے لادا ہوا خچروں کا قافلہ اس کے ہمراہ تھا۔ اتفاق کہوکہ خدا کی رضا کہو۔پاپائے روم راستے میں مل گیا،باتیں ہوئیں۔ پاپائے روم قیصر کو گرجے میں لے گیا۔ پچھلی طرف ایک مقفل کمرہ کھولا۔اندر شہد کے خالی کنستر اشرفیوں سے لبا لب بھرے نظر آئے۔ عیسائی مورخین نے اس عجیب
    وغریب واقعہ کو معجزہ یا کرامت کے انداز میں لکھا ہے۔ اس نے کہا۔ شہنشاہ معظم۔یہ ہے تمھارے دکھوں کاعلاج۔ اب انجیل مقدس پر ہاتھ رکھو اور قسم کھاؤ کہ تمھارا مرنا جینا رعیت کے ساتھ ہو گا۔ چنانچہ قیصر نے قسم کھائی اور واپس شہر میں لوٹ گیا۔ مشہور عیسائی مورخ گبن حیرانی سے لکھتا ہے کہ خدا خبر قی صر میں راتوں رات کیا تبدیلی رونما ہوئی کہ کہاں وہ قیصر جو سال ہا سال دبکی لومڑی کی طرح ایرانیوں کے آگے بھاگا بھاگا پھرتا تھا اور کہاں یہ قیصر جو زخم خوردہ شیر کی طرح ایرانیوں پر لپکا اور ان کو شکست پر شکست دیتا ہوا خود ایرانیوں کے دارالخلافہ پہنچ کر خسرو پرویزکسری ایران کو ذلت آمیز صلح پر مجبور کر دیا۔ مگر گبن کی حیرت یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ وہ آگے چل کر پھر لکھتا ہے کہ حیران ہوں کہ قیصر کو پھر کیا ہو گیا ادھر فتح مکمل ہوئی ادھر پھر وہی پرانا قیصر ہمارے سامنے تھا۔وہی سست الوجود عیش و عشرت کا دلدادہ بزدل، گبن بے چارے کو کیا معلوم کہ کس کی قدرت تھی کس نے اپنی پیشین گوئی کو سچ کر دکھاناتھا جس نے ایک ناممکن کو ممکن بناناتھا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    علامہ محمد یوسف جبریلؒ
    ادارہ افکار جبریل ؒقائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ

  12. On 30/01/2020 - 14:55

    قرآن حکیم کی عظیم ترین پیشین گوئی کا انکشاف
    تحریر : علامہ محمد یوسف جبریل

    اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مجھ بندہء عاجز پر قران حکیم کی اس عظیم بلکہ عظیم ترین پیشیں گوئی کا انکشاف ہوا اور اب میرا یہ فرض ہے کہ اللہ تعالی کی اس تنبییہ اور ہدایت کو جملہ انسانیت تک پہنچاؤں، کیونکہ اول تو قرآن حکیم کا فتہ الناس کے لئے ہے دوم یہ کہ اس ایٹمی خطرے میں دنیا کی ہر قوم مبتلا ہے اور کسی ایک کے بچ نکلنے کی کوئی اُ مید نہیں۔ انسانی تاریخ میں پانچ پییشین گوئیاں انسانی ذہن کو حیرت میں مبتلا کرنے والی ہیں توریت والی پیشین گوئی کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہا کہ بنی اسرائیل کے چچیرے بھائیوں یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تیرے جیسا نبی پیدا کروں گا،دوسری حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشیں گوئی کہ میرے بعد نبی آئے گا جس کا نام آحمد ہو گا۔ تیسری قرانی پیشین گوئی کہ ہزیمت خوردہ رومی ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے،چوتھی وہ پیشیں گوئی جس میں نبی آخر الزمان نے دجال کی تشریح فرمائی ہے اور پانچویں یہ پیشین گوئی جس میں قران حکیم نے حطمہ یعنی ایٹمی جہنم کی تشریح جدید سائنسی انداز میں کی ہے اور اس کے نمودار ہونے کے اسباب بیان فرمائے ہیں۔

  13. On 21/03/2020 - 15:14

    غیر سائنس سائنس دان فلسفی کہتا ہے:۔
    ”فزکس بھی ہمیں وہی بتاتی ہے جو کچھ کہ فلکیات بتاتی ہے۔ یقیناً تمام فلکیاتی تقاضوں سے صرفِ نظر۔فزکس کا عمومی اصول جسے علمِ حرکیات کے دوسرے قانون کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پیشین گوئی کرتا ہے کہ کائنات کا صرف ایک ہی انجام ہو سکتا ہے اور وہ ہے ”حرارت کی موت“۔ جس میں کائنات کی ساری قوت برابر برابر تقسیم ہو کر منتشر ہو جائے گی اور کائنات کا سارا مادہ ایک ہی درجہ حرارت پر ہوگا۔ یہ درجہ حرارت اتنا کم ہو گا کہ زندگی کو ناممکن بنا دے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس مخصوص راستے سے یہ آخری کیفیت وارد ہو گی۔ سب راہیں روم ہی کو جاتی ہیں اور سفر کا اختتام سوائے عالم گیر فنا کے اور کچھ نہیں ہو سکتا“۔
    (مائسٹیریس یونیورس صفحہ۱۱)
    غیر سائنسی سائنس دان فلسفی کہتا ہے:۔
    ”عالم گیر فنا“
    قرآن حکیم کا ارشاد ہے:۔
    ”کل من علیھا فان۔و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام“۔
    ترجمہ۔
    ”جو کوئی ہے زمین پر فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گا تیرے رب کی بزرگی کا“۔
    (۵۵ الرحمن ۶۲۔۷۲)
    YOUSUF GABRIEL

  14. On 21/03/2020 - 16:40

    بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ویل لکل ھمزہ لمزہ الذی جمع مالا و عددہ یحسب ان مالہ اخلدہ۔ کلا لینبذن فی الحطمہ۔ وما ادراک ماا لحطم۔ نارا للہ الموقدۃ التی تطلع علی الافئدۃ۔ انہا علیھم موصد ۃ فی عمد ممددۃ۔ (الھمزہ104
    (خرابی ہے ہر طعنہ دینے والے عیب چننے والے کی جس نے مال سمیٹا اور گِن گِن کر رکھا خیال کرتا ہے کہ اُ س کا مال اُ س کے ساتھ ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں بلکہ وہ حُطَمَہ میں پھینکا جائے گا اور تُو کیا سمجھا وہ حُطَمَہ کون ہے ایک آگ ہے اللہ کی سُلگائی ہوئی وہ جھانکتی ہے دلوں کو وہ آگ ہے بند کی ہوئی لمبے لمبے ستونوں میں“۔ (سورۃالھمزہ )
    ظ (۷) ایٹمی تباہی کے بعد انسانیت کے مزار پر نمودار ہونے والا کتبہ
    ”ان برباد کھنڈروں کے نیچے ایک کُہڑ ی ناسور زدہ عفریت نما اور عجیب الخلقت انسانی نسل کی بوسیدہ اور تہہ بہ تہہ ہڈیاں اور راکھ کے ڈھیر دبے پڑے ہیں۔ یہ کبھی انسان تھے۔ جو خُدا کی اس زمین پر خُدا کے خلیفہ کی حیثیت سے بستے تھے۔ خُدا کی پسندیدہ ترین مخلوق کی حیثیت میں خالق کے لامحدود انعام و اکرام سے نوازے ہوئے یہ لوگ اللہ کی صفات کا پَرتو تھے۔اُ ن پر کسی نے ظلم نہ کیا مگر خود اپنے ہی ہاتھوں یہ لوگ یہ سب کچھ اپنے سروں پر لائے حرص کی آگ سے بے قابو ہو کر اس زمین پر اپنی زندگی کا مقصود اور آخرت میں اپنا گھر بھلا بیٹھے اور غضبناک ہو کر ایک دوسرے پر پل پڑے اور سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ تمام روئے زمین پر بکھرے ہوئے شہروں کی ویرانی زبانِ حال سے آہیں بھرتے ہوئے شسدر ستاروں کو ایک المناک داستان سنانے کیلئے باقی ہے“۔
    ظ (۸) ککی پیش بینی
    ظ ک کا ارشاد ہے۔
    ’کم ترکوا من جنت و عیون و زروع و مقام کریم و نعمتہ کانوا فیھا فکھین کذ لک و اورثنہا قوما ا خرین فما بکت علیھم السماء و الارض وما کانوا منظرین“۔
    ترجمہ ”بہت سے چھوڑ گئے باغ اور چشمے اور کھیتیاں اور گھر خاصے اور آرام کا سامان جس میں باتیں بنایا کرتے تھے۔ یوں ہی ہوا اور وہ سب ہاتھ لگا دیا۔ ہم نے ایک دوسری قوم کے پھر نہ رویا اُ ن پر آسمان اور زمین اور نہ ملی اُ ن کو ڈھیل“
    (ک پارہ الیہ یرد۔سورۃ الدخان 44 آیت 25 تا 29)
    YOUSUF GABRIEL

  15. On 04/05/2021 - 08:57

    ماشااللہ

  16. On 11/07/2023 - 16:44

    سخنان بزرگان اسلام
    rooStespdni 5taaul h0lAimpu08ghh8f27rh2t293u10h705it281ha1a0 •
    ***قرآن، حطمه و جهنم اتمی***
    جای شک نیست که بشر به‌شکل بی‌پیشینه و بی‌سابقه پیشرفت نموده و در حال پیشرفت است، سهولت‌های شگفت‌انگیزی آشکارشده و در حال آشکار شدن است، سهولت‌هایی در بخش اقتصادی، اجتماعی، صحی، سیاسی، طرز زندگی و همه بخش‌های زندگی فردی و جمعی، اما باوجودی که بشر فاصله‌های ماهانه را در ساعت‌ها طی می‌کند وقتی فارغ برای مسائل انسانی و حتی برای خودش ندارد، باوجود نظام مغلق و بروکراسی پیچیده‌ی اقتصادی، ازدیاد غیرقابل‌باور تولیدات اقتصادی و فعالیت میلیون‌ها نهاد معاونت به مستضعفان، میلیون‌ها انسان از گرسنگی رنج می‌برند، باوجود کشف نظام بهداشتی و صحی پیشرفته و مدرن و پیشرفت غیرقابل‌باور در صنعت ادویه‌جات تعداد امراض افزایش‌یافته و بشر هرروز شاهد مرض کشنده و مهلک دیگر است، باوجود سازمان‌ها و نهادهای تنظیم و نظارت قوانین بین‌المللی اختلافات و جنگ‌های غیرمنصفانه‌ی بین‌المللی به اوج رسیده است، باوجود شعارها و عملکردهای پیهم در عرصه‌ی قوانین بشر و مبارزه با جنایات، انسان امروز بیشتر از همه‌وقت از جنایات و جرائم آسیب‌پذیر بوده و حقوق بشر زیر پا می‌شود و باوجود ادعای تکامل انسان، بشریت غیرانسانی‌ترین برهه‌ی تاریخی خویش را سپری می‌کند.
    افزایش دو بعد در حد اعظم آن، ترقی مثبت و در مقابل افزایش بعد منفی در حد اعظم‌تر، منجر به به‌وجود آمدن چراهای زیادی در ذهن هر تفکر کننده شده، مغزها و دل‌ها را به‌خاطر پیدا کردن جواب به این چراها برانگیخته و تحلیل آینده‌ی نزدیک و دور بشر را مغلق‌تر می‌سازد. نویسنده‌ی این مقاله در سیر خستگی‌ناپذیر فرآیند تفکر و مطالعه برای یافتن جواب این چراها و تحلیل آینده‌ی بشر به کتابی نادر بنام سلسله‌ی (کتاب‌های) جبرئیل برای خاموش‌سازی جهنم اتمی برمی‌خورد که به جواب این چراها پرداخته است. این مقاله چکیده‌ی برداشت‌ها از سلسله‌ی 9 جلدی کتاب علامه یوسف جبرئیل رحمه‌الله هست، اما قبل از آن چند نکته کوتاه ارزش یادآوری را دارد.
    قرآن پاک برای یک قوم خاص و یک‌زمان خاص نازل نشده است بلکه این کتاب به‌حیث بزرگ‌ترین معجزه‌ی تاریخ بشر جوابگوی تمام مشکلات بشر در هر برهه‌ی زمانی بوده و رهنمایی‌ها، بشارت‌ها، انذارها، امرها و نهی‌های این کتاب در هر زمان نسخه‌ی اکسیر برای فلاح بشریت است. این کتاب برای هر مشکل بشر چه درگذشته‌ها بوده، چه اکنون رویاروی بشر قرار دارد و چه در آینده آشکار خواهد شد راه‌حل داشته و هر آیت آن بیانگر پیام‌های نامحدود برای ما است چنانچه الله (ج) می‌فرماید: (وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ – ترجمه: و اين كتاب را كه روشنگر هر چيزى است و براى مسلمانان رهنمود و رحمت و بشارت گری است بر تو نازل كرديم)، (وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ – ترجمه: و به‌راستی در اين قرآن براى مردم از هرگونه مثلى آورديم). قرآن بیان‌گر همه‌چیز است و هرگونه مثال در این کتاب آورده شده است پس برای حل هر مشکل بشر باید به کلام الهی مراجعه شود و مطابق عصر تفسیر حکایات و روایات جاری و آینده از آن گرفته شود زیرا باوجود هزاران کتاب تفسیر و میلیون‌ها صفحه تفسیر هیچ‌کسی گفته نمی‌تواند که علم کامل قرآن را بیان کرده است و بیان کرده می‌تواند چنانچه الله (ج) می‌فرماید: (قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا – ترجمه: بگو اگر دريا براى كلمات پروردگارم مركب شود پيش از آنكه كلمات پروردگارم پايان پذيرد قطعاً دريا پايان می‌یابد هرچند نظيرش را به مدد [آن] بياوريم).
    در چنین حالتی که بشریت را خطر جهنم اتمی تهدید می‌کند، چکیده‌ی کتاب 3000 صفحه‌ی یوسف جبرئیل را که تقریباً تماماً تفسیر سوره‌ی کوتاه قرآن (الهمزه) که در 36 کلمه حقیقت جهان مدرن را همراه با آینده‌ی آن به‌شکل شگفت‌انگیز بیان نموده و بر علاوه‌ی اینکه یگانه راهنمای بشر مدرنِ در حال سقوط هست اثبات اعجاز قرآن نیز می‌باشد، مهم می‌پندارم.
    برای اینکه فشرده‌ی 3000 صفحه در چند سطر برای درک ساده شود، نقل آیت دیگر از قرآن مهم است: (وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَة رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا – ترجمه: و كسانى را كه ايمان آورده‌اند و كارهاى شايسته انجام داده‌اند مژده‌ ده كه ايشان را باغ‌هایی خواهد بود كه از زير [درختان] آن‌ها جوی‌ها روان است هرگاه میوه‌ای از آن روزى ايشان شود می‌گویند اين همان است كه پیش‌ازاین [نيز] روزى ما بوده و مانند آن [نعمت‌ها] به ايشان داده شود). بعضی از مفسرین بر این اعتقادند که مراد از متشابه بودن میوه‌ها این است که هیأت و شکل ظاهری میوه‌های بهشت همانند میوه‌های دنیا است. همان‌طوری‌که متشابه نعمت‌های بهشت در این دنیا نشان داده می‌شود، ممکن است متشابه عذاب‌های جهنم نیز در این دنیا نشان داده شود و با همین دید به تفسیر سوره‌ی 36 کلمه‌ای ازنظر علامه یوسف می‌پردازیم.
    وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ (1) الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ (2) يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ (3) كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ (4) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ (5) نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ (6) الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ (7) إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ ( فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ (9)
    ترجمه: وای به حال هر عیب‌جو (مسخره کننده، بدگوی) و طعنه زننده (غیبت کننده، هرزه زبان)، کسی‌که دارایی فراوانی را گرد می‌آورد و آن‌را بارها می‌شمارد، گمان می‌کند مالش او را جاودانه می‌سازد. هرگز! (چنین نیست که او می‌پندارد) در حطمه (خورد کننده و درهم‌شکننده) پرت می‌گردد و فرو انداخته می‌شود، تو چه میدانی حطمه (خورد کننده و درهم‌شکننده) چیست؟ آتش افروخته الهی است، آتشی که به دل‌ها چیره می‌شود و می‌رسد، آن آتشی (که) ایشان را دربر می‌گیرد که سرپوشیده و دربسته است، در ستون‌های بلند و دراز.
    اگرچه در شأن نزول این سوره می‌آید که فرد و یا افراد خاص مانند ولید بن مغیره را مخاطب قرار داده است ولی به نظر اجماع امت مخاطبان آن عام بوده و تا قیامت تمام انسان‌ها را در برمی‌گیرد. بدون شک این سوره حقیقت جهان ما را در دو بخش بیان می‌کند، بخش اول خصوصیات و ویژگی‌های افراد خاص و بخش دوم وعید تعذیب به این گروه مردم.
    ویژگی‌ها و خصوصیات:
    1. عیب‌جویی، مسخره کردن، غیبت، طعنه‌زنی و هرزه زبانی: عصر مدرن را می‌توان عصر عیب‌جویی، غیبت و هرزه زبانی نامید زیرا مردم این عصر به‌صورت گسترده و بی پیشینه این خصوصیات شریر را به‌شکل فردی و جمعی به آغوش گرفته‌اند. هیچ دو فردی باهم صحبت نمی‌کنند که فرد سومی را بدگویی نکنند و هیچ سه فردی باهم نمی‌نشینند مگر اینکه فرد چهارم را مسخره نکرده و غیبت وی را نکنند. عیب‌جویی و غیبت به یکی از سرگرمی‌های انسان مدرن مبدل شده است، فامیل‌ها غیبت و بدگویی سایر فامیل‌ها را می‌کنند، دوستان به دوستان طعنه‌زنی می‌کنند، همکاران به‌خاطر موقف سایر همکاران را مسخره کرده و تهمت می‌بندند و حتی پیروان یک فکر و یک عقیده همیشه دنبال مسخره سازی و طعنه‌زنی به پیروان سایر افکارند. هرزه زبانی و مسخره کردن در این عصر به یک مسلک بنام کمیدی مبدل شده است، کمیدین‌های چون رسل پیتر از مسخره کردن افراد، اقوام، نژادها و تمدن‌ها پول به‌دست آورده و میلیون‌ها مردم از این هرزه‌گویی و مسخره گری لذت می‌برند. رسانه‌ها که یکی از شاخص‌های شناختی عصر مدرن‌اند بزرگ‌ترین منبع عیب‌جویی و عیب‌گیری و رسانه‌های اجتماعی بزرگ‌ترین منبع غیبت و طعنه‌زنی می‌باشد. پروپاگند‌های رسانه‌ای به‌حیث نماد همزه و لمزه جهانی که اکثراً راه‌اندازان به طعنه‌زنی، مسخره ساختن، عیب‌گیری و تهمت زنی به رقیبان خویش می‌پردازند یک پدیده‌ی مثبت شمرده می‌شود. اچ. جی. ولز ادبیات پروپاگند را شریر و شیطانی‌ترین شاخص عصر می‌داند و فیلیپ تیلر می‌گوید: برای بعضی پروپاگند سبب جنگ است و برای بعضی اهریمنی‌تر از جنگ محسوب می‌شود. پروپاگندها سبب بدبختی‌های زیادی و محرک جنگ‌های بزرگ مانند جنگ‌های جهانی اول و دوم شده و فعلاً بشر را به‌سوی جنگ جهانی سوم رهبری می‌کند، بله! بزرگ‌ترین محرک دشمنی‌های دو قطب شرقی و غربی و کشورهای خاورمیانه همین پروپاگندها می‌باشد. قابل‌یادآوری است که مخاطب اکثر وعیدهای جهنمی قرآن کافران و مشرکان می‌باشد، اما مخاطب این سوره تمام مردم‌اند. اکثر مسلمانان نیز این شاخص‌های مذموم را به آغوش گرفته‌اند؛ داعیان را می‌بینی که بنام دعوت به عیب‌جویی، تهمت و طعنه‌زنی رقیبان خویش پرداخته و حتی به فکر اینکه کار دعوت را پیش می‌برند، سایر مسلمانان را که هم‌گروه، هم‌مذهب، هم‌نظر و هم‌آوایشان نیستند متهم به فسق، گمراهی کرده و بزرگ‌ترین دغدغه‌ی ایشان این است که چطور کوچک‌ترین عیب در آن‌ها بیابند و آن‌را در شبکه‌های اجتماعی بزرگنمایی کرده نشر کنند و چند پسند (لایک) و شادباشی (کمنت) بگیرند.
    2. جمع‌آوری مال و پول‌پرستی: در تفسیر آیه دوم علما چنین گفته‌اند؛ 1. تفسیر نور: “چراکه از شمردن پول و سرشماری دارایی کیف می‌کند و لذت می‌برد و فکر و ذکرش اموال و معبود و مسجودش درهم و دینار است. برق این بت او را غرق شادی می‌کند و نه‌تنها شخصیت خویش بلکه تمام شخصیت‌ها را در آن خلاصه می‌کند “و 2. تفسیر انوار القرآن: “یعنی سبب عیب‌جویی و طعنه زدن این است که به مال گردآورده خود دل‌خوش، سرمست و مغرور است و می‌پندارد که به‌وسیله آن بر دیگران فضل وبرتری دارد، ازاین‌جهت دیگران را کوچک و حقیر می‌پندارد”. اکنون کلاه‌های فکر خویش را به سرکرده نخست به خویش و بعد به چهار اطراف خویش بنگریم که آیا انسان عصر مدرن تفسیر این آیه نیست؟ آیا ما در عصری زندگی نمی‌کنیم که تمام بشر به محور یک الهه بنام دینار و درهم (پول) جمع شده طواف می‌کنند؟ آیا معیار شخصیت در این عصر پول نیست؟ آیا همه به‌خاطر پول به جان یکدیگر نیفتاده‌اند؟ آیا این پول نیست که مردم را به جان یکدیگر انداخته و سبب بدگویی و بدبینی میان مردم شده است؟ آیا این منابع نیست که از قرن 20 تا اکنون سبب جنگ‌ها شده است و اکنون جنگ منابع بشریت را به‌سوی جنگ اتمی رهبری نمی‌کند؟. اصلاً این عصر (عصر مدرن) عصر ماده‌گرایی و ماده‌پرستی است، به‌استثناء تعداد انگشت‌شماری از انسان‌ها، همه مردم (پیرو هر دین و هر ایدئولوژی) ماده‌گرا و ماده‌پرست شده‌اند. و این محبت بی‌انتها به پول و بیشتر خواهی سبب از بین رفتن اخلاقیات و الهیات شده و انسان عصر مدرن را به روباتی مبدل ساخته است که تنها برنامه‌اش درآوردن پول می‌باشد. محبت بیش از همه‌چیز به پول سبب خشکیدن ریشه‌های خانواده شده است، شهوت برای به‌دست آوردن بیشتر و بیشتر پول سبب از بین رفتن محیط‌زیست شده است، ترقی برای ترقی عصر مدرن سبب شده است که صحت مردم تجارت شود، پول خواهی سبب شده است که انسان انسان نماند و این ارجحیت پول است که همه را مفسد ساخته است.
    3. هوس جاودانگی: دو احتمال در تفسیر آیت سوم وجود دارد، یا اینکه جمع آورندگان مال فکر می‌کنند که مالشان آن‌ها را برای همیشه در این دنیا نگه می‌دارد و یا اینکه آن‌قدر شیفته و گرفتار مال دنیا می‌شوند که مرگ وزندگی پس از مرگ را فراموش می‌کنند. مردم در این عصر آن‌قدر اعتماد و توکل به ساختار و دارایی خویش و پلان‌های دنیوی خویش دارند که مرگ و خدا را فراموش کرده و عقیده‌شان نسبت به خدا کمتر از عقیده به دارایی و داشته‌های دنیوی‌شان است. انسان‌ها تمدن ماده‌پرست را همیشگی دانسته و فکر می‌کنند برای همیشه روند ترقی برای ترقی پیش خواهد رفت. تصور کلی انسان عصر مدرن این است که برای همیشه زنده است و این زندگی مرتبط به دارایی وی است. قدرت جاودانگی بالای همه حاکم شده است. به‌شکل جمعی تمدن مدرن غربی دنبال یک هدف به گفته‌ی خودشان مسیحایی است که آرزوی نهایی آن برپا سازی یک دولت جهانی می‌باشد تا برای همیشه برجهان حکومت کند.
    بله! انسان عصر مدرن به چنین موجوداتی مبدل شده است اما الله ﷻ می‌فرماید کلا (هرگز چنین نیست که آنان می‌پندارند) بلکه در حطمه افگنده می‌شوند و تو چه میدانی حطمه چیست؟ و پس‌ازآن به تشریح حطمه می‌پردازد. بعضی مفسرین به این باور هستند که این نوع مردم همراه با دارایی‌هایشان در حطمه افگنده می‌شوند. علامه یوسف جبرئیل می‌گوید که حطمه بر علاوه‌ی اینکه آتشی است در جهنم، متشابه آن در این دنیا نیز امکان دارد نشان داده شود و آن‌هم سلاح اتمی است زیرا تشریح قرآنی از آتش حطمه به‌طور شگفت‌انگیز و معجزه‌آسا مشابه به انفجارهای اتمی است. او بمب اتمی و انرژی اتمی را کشف بشر نه بلکه قهر خدا می‌داند و سبب به‌وجود آمدن آن‌را شاخص‌های متذکره در قرآن می‌داند چنانچه در جلد کتاب می‌آید: حرص ریشه است، این ترقی (ترقی برای ترقی) تنه است و بمب اتمی میوه‌ی این درخت است. تشعشعات هسته‌ای می‌تواند رایحه‌ی آن محسوب شود.
    درزمانی که جهان به‌سرعت به‌سوی جنگ اتمی درحرکت است مطالعه‌ی این هشدار قرآن بسیار اهم محسوب می‌شود!
    مشابهت‌های حطمه با انفجار اتمی
    1. شکننده و خردکننده است: لفظ حطمه در عربی به معنی خردکننده و شکننده است و پدیده‌ی اتمی تماماً به محور شکستن و خرد کردن اتم می‌چرخد. بر علاوه طبیعت پدیده‌ی اتمی کاملاً خردکننده و شکننده است و آتش‌های کیمیائی دارای چنین خواص نمی‌باشند. تشعشع نخستین خردکننده‌ی قلب قربانیان است و زمان کافی برای مرگ به اثر سوختگی برای قربانیان نمی‌دهد و انفجار اتمی قوی‌ترین تعمیرها و همه‌چیزی را که به آن برخورد می‌کند چنان خرد می‌کند که به خاک مبدل می‌شوند.
    2. آتش است: انفجار اتمی آتشی است که دارای دو جز اصلی بنام (Heat Flash) و (Ionizing Radiation) می‌باشد. (Heat Flash) تابش و تشعشع اولیه است که خیره‌کننده‌تر از آفتاب می‌باشد. آتشی که توسط بمب اتمی تولید می‌شود، طبیعت زمینی نداشته، بلکه درجه‌ی حرارت آن به درجه‌ی حرارت ستاره‌های درخشان فضایی و انفجارت فضایی می‌رسد و چون سبب به‌وجود آمدن آن نیز گناه‌های متذکره می‌باشد بناءً آتش الله ﷻ خوانده‌شده است، چنانچه علامه یوسف جبرئیل می‌نویسد: آتش اتمی کیفر است. انرژی نیست. تباهی است و لعنت است. بمب اتمی سلاح دفاعی نیست اما بشریت در شهوت سرمایه و راحت‌طلبی کور شده و این جهنم را نمی‌تواند ببیند.
    3. بر قلب‌ها چیره می‌شود: نخست باید گفت که پدیده‌ی اتمی، پدیده‌ی هسته‌ای هست و سایر پدیده‌ها مانند کیمیائی و برقی ربطی به هسته ندارند و هسته‌ی اتم‌ها را بعضی ساینس‌دانان مانند ادوارد تلر قلب نیز میگویند. ثانیاً تشعشعات هسته‌ای قلب موادی را موردحمله قرار می‌دهد که از آن می‌گذرد و این تشعشعات هسته (قلب) حجرات را در زنده‌جان‌ها موردحمله قرار می‌دهد. کسانی‌که در ساحه‌ی تأثیر انفجار اتمی قرار می‌گیرند به‌شکل فوری توسط هراس و شوک ناگهانی قلب‌هایشان از کار می‌افتد و می‌میرند، برخلاف سوختگی‌های عادی که قلب از آن متأثر نشده و به‌شکل آنی نمی‌میرند (هرقدر سوختگی شدید باشد).
    4. آتش دربرگیرنده در ستون‌های بلند و دراز: لطفاً قدرت تصور خویش را فعال ساخته و انفجار یک بمب اتمی 15 میگا تن را در نظر بگیرید. تصور شما تصویر یک ستون آتشی مانند ستون وسطی یک خیمه‌ی بزرگ آتشین را که ارتفاع آن 16 کیلومتر است مجسم خواهد کرد. این ستون بردارنده‌ی یک سقف سمارق‌گونه‌ی است که به شعاع 100 کیلومتر پراگنده شده است. باران رادیواکتیوی این انفجار و حرارت آن دربرگیرنده‌ی میلیون‌ها انسان است و اگر قدرت تصور را اندکی گسترده کرده و چند انفجار را در فاصله‌های 100 کیلومتری در شهرهای مجاور در نظر بگیریم به تفسیر بعضی از اصحاب کرام از حطمه تصویری از عمارتی آتشین را مجسم خواهیم دید که قربانیان خویش را تعذیب می‌کند. تصویر انفجارهای اتمی کاملاً تصویری است که سوره‌ی 36 کلمه‌ای قرآن برایمان کشیده است و اسباب آن‌را نیز گفته است.
    در طول تاریخ بشر گناه‌ها به‌شکل فردی وجود داشته است، اما عذاب الهی زمانی نازل می‌شود که گناه‌ها عام شود؛ مثلاً هم‌جنس‌بازی در طول تاریخ وجود داشته است اما زمانی‌که قوم لوط آن‌را عام ساختند عذاب الهی نازل شد. همین‌گونه عیب‌جویی، هرزه زبانی، غیبت، ماده‌گرایی و ماده‌پرستی و تلاش برای خلود در طول تاریخ وجود داشته است اما هیچ‌گاه این چهار ویژگی چنان‌که در عصر کنونی عام و همه‌شمول شده است، موجود نبوده است. بناءً امکان عذاب الهی نیز می‌رود. هدف علامه یوسف جبرئیل ایجاد ترس و وحشت از نوشتن 3000 صفحه نیست و هدف این مقاله نیز چنین نیست بلکه هدف یوسف جبرئیل پیشنهاد راه‌حل برای خاموش‌سازی جهنم اتمی است که آن‌هم با از بین بردن ویژگی‌های چون طعنه‌زنی، هرزه زبانی، عیب‌جویی، ماده‌پرستی و تلاش بی‌فایده برای خلود است و هدف این مقاله نیز هشداری است برای خوانندگان!
    خواننده‌ی گرامی مانند خودم اکثر شما نیز درجه‌ی از این خصایص مذموم را با خود حمل می‌کنید، و وظیفه‌ی ما به‌حیث مسلمانان این است تا نخست خویش را مستحق عذاب الهی (دنیوی و اخروی) نسازیم و بعد خانواده و ماحول خویش را از عذاب الهی هشدار داده و به طریق احسن مانع شویم، پس بهتر است تا سخت علیه این خصایص نخست در نفس‌های خویش و بعد در نفس‌های سایرین مبارزه کنیم تا حداقل اگر عذاب این دنیا را متحمل شدیم عذاب آخرت انتظار ما را نکشد زیرا بعضی‌اوقات زمانی‌که عذاب الهی می‌آید بعضی کسانی را که مستحق عذاب نیستند در این دنیا دربر می‌گیرد.
    نوت: کوتاه‌سازی 9 جلد کتاب در چند سطر کاری است بسا مشکل که از عهده‌ی نویسنده خارج است و ممکن در ذهن خواننده‌ی گرامی سؤالات مختلف به‌وجود بیاید، پس کسانی‌که خواهان نقد این مقاله و پیدا کردن جواب سؤالات خویش‌اند، کتاب علامه یوسف جبرئیل و تحقیقات مزید در بخش ساینس اتمی و سوره‌ی الهمزه را برایشان توصیه می‌کنم.
    به امید بیداری امت اسلام!
    1. Yousuf Gabriel; Gabriel’s Extinguishing the Atomic Hell Series: The Miracle of Holy Quran… (2015)
    2. محمد شفیع عثمانی؛ مترجم: محمد یوسف حسین پور؛ معارف القرآن؛ جلد اول؛ صفحه 209
    3. H. G. Wells; The Short History of the World (1996); p 83
    4. Philip M. Taylor; Munitions of the Mind: A History of Propaganda, Third Edition; p 1

The search box accepts Urdu, Hindi and English words in their native alphabets.